Pages

Sunday, November 10, 2019

یہ آرزو ہے کہ ختم اب یہ انتظار ہوتا

یہ آرزو ہے کہ ختم اب یہ انتظار تو ہوتا
یا ان کی چاہ میں دل میرا  بھی فگار تو ہوتا


مری اک اک نس میں خوشبو آپ کی بس جاتی
کہ میرا بھی جو بسیرا اسی دیار تو ہوتا

بلا لیں اس دلِ بے قرار کو پاس اپنے
کہ میرے دکھ کا اظہار شہرِ یار تو ہوتا

قفس سے روح نکل جاتی آپ کے در پر ہی
کہ نقش یہ قصہ کوچہ و دِوار تو ہوتا

جدھر مکیں والی دنیا اور مدینے کے حاکم
اسی کی خاک میں میرا بھی اک مزار تو ہوتا
مکمل تحریر >>

Saturday, November 2, 2019

ثنائے محمد کیے جاتے ہیں

اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد
ثنائے محمد کیے جاتے ہیں اور پیش حق مسکراتے جاتے ہیں ... پیش حق مسکرانے سے بات نہیں بنتی بلکہ دل کو دل سے ملانے سے بات بنتی ہیں. جب میں نہیں ہوتی تو وہ ہوتا ہے اور جو وہ کہتا ہے کہ چلو رہ توصیف اور کرو بیانِ کے بیان اورعالم نسیان میں وجدان اسرار حقیقی کے نئے دھاگے لاتا ہے اور میں کہتی ہوں. میں نہیں کہتی یہ وہ کہتا ہے. جلنے میں حرج نہیں مگر جل جانے سے کیا ہوگا؟ جل کے مرجانے میں کچھ نہیں مگر جل کے مرجانے سے کیا ہوگا؟  بس آنکھ کا وضو بڑھ جائے گا. بس دل کے ریشہ ہائے منسلج میں رہنے والے تار تار کا بیان ہوگا. حق ھو. وضو کی نہر جاری ہے اور نیت دل میں نماز ہجر کا بیان نہیں تو نماز.شوق کروں کیسے بیان کہ اشک نہاں میں کُھبا ہے اک پیکان اور دل کے میر نے کہہ دیا چل کہ یہ سفر کا موسم ہے اور موسم  کے رنگ بھی عجب ہے. یہ ڈھنگ میں کیسے بھنور ہے کہ بھنور کو ساحل مل گیا یے ... شمس کی غنائیت میں چھپا سرمہ اک عجب رنگ رکھتا یے کہ یہ وہ شمس تھا جس نے ملتان سے گرمی کے سامان کو، ہجر کا نشان کیا تھا ... رکھ دے دل اور مسجود ہو جا جس کے دم سے روح ماہی بے آب کی طرح کانپتی ہے کہ دل مٹ جا کہ بسمل کی تڑپ کے سو نشان بننے والے ہیں .

جل رہا ہے دل کہ روح ہے
مل رہا ہے دل کہ روح ہے
ذرے ذے میں کو بہ کو ہے
جس کی محو ثنا میں تو ہے
رگ جان سے قرین ہوں میں
دل کے فسانے کہ دوں میں
قلم ٹوٹ جائیں گے سارے
بیان نہ ہوگی ہجر کی داستان
ہجر میں عشاق کے قبیلے ہیں
دل میں جاناں کے میلے ہیں
خزانے ہاتھ میں رکھے ہیں
شاہا نے کمال سے دیے ہیں
وہ جو رنگ یاقوت میں ہے
وہ جو رنگ لاھوت میں ہے
فنا کے چکر نہیں سارے
لازوال ہیں  دوست سارے
روشنی کا  مزاج  عجب ہے
لگتا ہے ہر ماہ، ماہ رجب یے
یہ انسان میں کیسا نسیان ہے
اترا رمضان  میں یہ قران ہے

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے
رنگ میں خمار کی مے ہے
دل میں غم کے لاوے ہیں

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے
بندگی  طریقہ دین ہے
بندگی یاد میں رہنا ہے
بندگی غلامی ہے

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم
میں خاک زہرا بتول ہوں
عشق حرم کے فسانے ہیں
چل پھر رہے دیوانے ہیں
نبوت کے مینارے ہیں
عجب یہ استعارے ہیں
کنزالایمان،  بلیغ لسان
محمد عربی کا ہر بیان
شمس الدجی کی تجلی
لگ رہی ہے کوئ وحی
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے
رات میں ساتھ رکھا ہے
روحی چشمے سارے ہیں
وصل کو پھرتے مارے ہیں
اشرف ہوئے سارے ہیں
مدین سے پھیلے فسانے
ناپ تول کے تھے پیمانے
چھوٹ گئے سب یارانے
جوگی مل گئے سب پرانے


مکمل تحریر >>

رات

رات کی ہتھیلی پہ چاند!
دن کے آنگن میں سورج.
اے مرے من نگر میں رہنے والے دیپ
تم دونوں سے منسوب ہوئے
گویا کہ تم خوب ہوئے


مکمل تحریر >>

راگھا

آج رنگ کی محفل میں راگھا نے دیپک کے گیت چرا لیے،  دیپک نے جگنو پکڑ لیے اور شام گزار دی،  رات میں فراق نے پکڑا تھا کہ راگھا کے رقص نے زندگی دے دی  .... زندگی کے پل ❤ مگر تیر پیوست ہوگیا دل میں 💘 راگھا کون تھی؟  دیپک؟  بگھوان؟  کیا؟


مکمل تحریر >>

افق

یہ افق کے ماتھے پہ جو رنگ ہیں ، وہ کس کے ماتھے کا وہ ٹیکا ہے ؟جس سے سات رنگ نکل رہے ہیں اور جگ سمجھے کہ قزح پھیلے!

مار ڈالا،
سرگوشی نے،
اسکے رنگ نے،
اسکی صدا نے،
میٹھے سرگم بے،
دھیمے سُر نے، .


مکمل تحریر >>

وجد

وجد، الواجد کی تحریر ہے
جب مری روح کو مرا حصہ ملتا ہے
تو میں جھوم کے کہتی ہوں
الواجد کی تصویر کون ہے؟
مرے دل میں سرر کی تصویر ہے
یہ المصور کے ست رنگ میں ڈھلی ہو
مرے دل میں سات کلیاں کھل جاتی ہیں 
مرے چراغوں کو تبسم ملتا ہے تو
میں مسکراتی رہےی ہوں مسلسل
میں رقص میں رہتی مسلسل
مجھ پہ واجب الوجود کا سایہ ہوتا ہے
اے مری نور، مرے ساتھ چل
اے مرا قلب! جھانکا کر دل میں


مکمل تحریر >>

آیات بی بی زہرہ تحریر نمبر ۲

انجیل مقدس میں لکھا ہے ہاروت ماروت جادو گر تھے،  یہی بات قران پاک میں موجود ہے،  مگر ان دونوں باتوں کے پہنچانے کے حوالے بہت مختلف ہیں .. صدیوں کے بعد اگر دیکھا جائے تو بس دائرے مختلف ہوگئے ہیں مگر بات وہی چلی.آ رہی ہے .... پیغام پہنچانے والے پیامبر مختلف ہوگئے جبکہ پیغام وہی اک ہے ....

جب سیدہ بی بی  زہرا(سلام ان پر، درود ان پر)  نے اس دنیا میں تشریف قدم کیا تو ان کا نور   بہت مقدس تھا، بہت مقدس ہے اور تا ابد مقدس رہے گا ...   آسمان سے انجیل مقدس کی سے قران پاک تک جتنی پاک روحیں سیدہ بی بی مریم کی پرتو،  عکس تھیں ...

ان سب نیک ارواح نے  سیدہ بی بی فاطمہ امِ ابیھا(سلام ان پر، درود ان پر) کے سینہ مبارک سے  اتصال کردیا تھا، یہ خالق کی حکمت کہ آیت کوثر بحوالہ سیدہ فاطمہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہیں.   چاہے وہ مصحف داؤدی تھا،  چاہے وہ مصحف ابراہیم کی آیات ہوِ  چاہے وہ یوحنا کی مقدس بابرکت روشنی ہو  یا وہ جوزف کی خوبصورتی تھی ...ان سب کو حُسن، نور، روشنی،  علم،  معرفت اس پاک مقدس نور سے ملی

قران پاک میں اس کا ذکر خیر کیا گیا ہے،  نفس مطمئنہ پر قرار پانے والی روح سیدہ پاک بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ ...  اس وقت  تمام رواح اس نوری ہالے میں جو  داخل ہوئیں تو  سب کو  سیدہ فاطمہ  الزہرا علیہ سلام کا سایہ مل.گیا

وہ جو عفو کی مثال ہیں، وہ فاطمہ کمال ہیں
انہی سے ملا اوج نور کو مقام ھو تلک

  حضرت موسی  علیہ سلام کا جلال اور  حضرت عیسی  علیہ سلام کا جمال ہو ...اسکی نمود ہوئیی حسنین کریمین مین  ان روشنیوں نے ان ہستیوں میں کمال پالیا

حسن و حسین علی کے چمن کے لالہ زار
انہی سے نکلے موسی و عیسی جیسے بار بار

جلال حضرت  حسین علیہ سلام کے لیے تھا جبکہ جمال  حضرت حسن علیہ سلام کے لیے لکھ دیا.گیا


مکمل تحریر >>

نعتیہ جذبات

وجہ تخلیق بشر اے، بلیغ لسان ..کوئی ترے جیسے کہاں. ترے مکھ کا.بیان ہو کسی سے کہاں، شوق جرم خانہ باب میں،  وہ ذیشان طلوع ذات ہے،  ریحان ذات زیست میں کوئے نہاں ہے ...زندگی اے زندگی کدھر جائیں کہ نام صلی علی پہ گر نہ ہو بیان کہ یہ تجسس فقط عرق ریزی ہے،  زندگی تو بس تیری یے. یہ عجم سے اٹھی عرب تک گئی، میرے شوق کی داستان جانے کہاِں تک گئی ..اے قبلہ ء شوق،  اے شمع پروانہ، اے ضوئے گلستان ...جب ترا بیان ہو، کب کسی کا نشان ہو


مکمل تحریر >>

عرفان ذات

...عرفان ذات خود سے خدا تک سفر ہے،  چھوٹے چشمے کا سمندر کی جانب ..معبد بدن میں جب اک ذات ظاہر ہوجائے تو وہ ہی رہتی ہے،  وہ ہمہ وقت رہتی ہے،  وہ پاس بلاتی ہے،  وہ یار سے ملاتی ہے. یارانہ ہے کیا؟ بہانہ بنتا ہے اور یارانہ ہوجاتا ہے ..  وہ دوست جو اسکا دوست ہوتا ہے اسکو کیفیات نفسانی مغلوب نہیں کرتی. مقام لاتحزن ولاخوف سے مبراء ہوجانا بے نیازی کا مقام یے. اے خدا،  دل لگی کی ہے
اے خدا،  روشنی سی ہے
اے خدا، زیبا پس حجاب ہے
اے خدا، کون پس نقاب ہے؟
اے خدا،  دید کو بہانے ملتے نہیں
اے خدا، ترے دوست ملتے نہیں
یہ دل لگی ساری ہے، کائنات پیاری ہے
یہ مقام شوق سے پرے نہیں
یہ مقام دل میں اوٹ میں ہے
یہ نیاز مندی کے سجدے میں
یہ نوائے دل کی صدا میں ہے.
خدا،  لامحدود ازل سے ہے
یہ رگ دل میں کب سے ہے
کٹیں انگلیاں نامہ ء بر کے پاس
رہین دل کے پاس نگار جان نہیں
پیش روئے جاناں ہو مازاغ البصر کا مقام.
وہ چہرہ ہو اور. مسکرانے کا حال
وہ حال ہو کہ مٹ جائے. ملال

یہ تحریر شوق ذات ہے،  یہ ستم ہے تیرِ پیوست کا،  یہ نگہ سے گھائل جو دل ہے،  یہ فقط اسیر باغِ امیر ہے،  کہیں کے دل جس در کا فقیر ہے ...

... جو مبارک زیست ہو سفر میں ہو ...یہ زندگی بسر حذر میں، جو شوق ہو ننگ سفر میں ہو، جو حال ہو وہ نہال غم میں ہو، جو درد کی سوغات ہو تو ھل من کی صدا ہو، جو ھل من پر بات چلے تو اذن ہو استعجاب کا،  جو حیرت سے نکل سکوں تو میں یہ کہہ سکوں کہ عالم شہود میں عالم نیست میں، کچھ نہیں ہے مگر سب ہے، کچھ نہیں ہے بس وہ ہے، جو خلا ہے وہ مدام شوق ہے،  جو فنا ہے وہ رفقیق جان ہے


مکمل تحریر >>

نعت

اک نعت میں نے لکھی ہوتی، وہ پھر کہی ہوتی،
میں نہ سوتی،  جو سوتی تو، دید ہو جاتی
روئے ہم ہزار بار کہ یاد میں ہوئے ٹکرے ہزار
جو چپ ہوئے تو جگر پر خنجر چلے بار بار
اک دید تو کمی ہے،میرے پیار میں ہی کمی ہے
آپکی رحمت کے بادلوں میں چادر نور کی تنی ہے
میری بنی تو آپ سے ہے  لو لگی تو آپ سے ہے
میں پاس کیا نہیں بس رات میں چاند کی کمی ہے
آپ کے قدم،  میرا رہے سر،  یہ اٹھے نہ کبھی
میری زندگی آپ کے آستان سے تو بنی ہے


مکمل تحریر >>

یہ دم عکس مجھے کیا.ہوا

یہ دم عکس مجھے کیا ہوا؟ میرا وجود ہے بنٹا ہوا. میرا عکس ہے جِلا پایا، میرا نور، نور حزین ہے،  وہی جو میرے دل میں مکین ہے،  وہی جو فشار میں روان ہے،  وہی جو رگ جان سے قرین ہے،  وہی جو نسیان کی بات میں ہے،  وہی جو شہِ والا کی رات ہے،  میری رات میں ان کی بات ہے،  والیل تری نظروں کے ہیں سائے،  والشمس ہے مقام ما زاغ البصر،  والضححی رقت آمیر ہچکی جب مانگی تھی دعا امت کے لیے،  والعصر پہ روئے حبیب خدا

یہ جراءت  نہیں کہ منظور نہیں جینا، یہ حاجت ہے کہ منظور نہیں مرنا، جب ہوں وہ، تو کیا مرنا، جب نہ ہوں تو کیا جینا

ہم سب اپنی نصیب کے چکروں میں، اک چکر میں گھوم رہے ہیں. کبھی دن تو کبھی رات کبھی آنکھ تو کبھی چاند، کبھی نور تو کبھی نار، کبھی استقامت تو کبھی بہک جانا. یہ ہمہ ہمی میں اسکی ہے سانس بنی،  یہ سانس میں جو چلی ہے اک شرار سی بنی ہے اس شرار میں نام لوح حرف کا عکس فاطمہ ہیں میری نسبتوں کا معین وقت ہے،  میرا مرکز نور فاطمہ ہیں. فاطمہ کے لعل باکمال نے زیست کے سب مرحلوں میں دی آگہی کہ حق یا علی کہنے سے نہیں، حق یا علی سے شہید کی منزل نصیب ہونے تک،  کچھ نہیں ملتا. اللہ ھو الشاھد اللہ ھو الشہید


مکمل تحریر >>

تری یاد میں دل حزین کا قرار لٹا

تری یاد میں دلِ حزین کا قرار لُٹا
دید میں ہو کے گُم، باڑہ نور کا بنٹا
ماہ لقا!  مہرِ رسالت،  تمثیل یزداں
دل میں نہیں کوئ بس تو پنہاں
یہ جو ہم ہار گئے، تیر دل کے پار گئے
جو جان سے گزر گئے ترے در بیٹھ گئے
سچ پایا سب نے روئے شہِ ابرار کے پاس
گنوا دیے دل جو گئے شافعی امم کے پاس
رات سلونی،  شام خنجر، انتظار لذت
منتظر ہیں وار پہ وار کہ ہیں یار ساتھ
اے ختم الرسل،  ہادی برحق، سالار امم
دیکھیے مجھےآنکھ میں نم،  دل میں غم


مکمل تحریر >>

جبین دل

جبین جھکی تو پیار ملا
نیاز میں رہے، اظہار کیا

قسم شب تار کی، حریر ریشم میں مقید خیال کی،  قسم ہے اس خورشید تابانی کی ... قسم ہے اس زیست کی جب حرکت پذیر کرنے والے کام میں،  ہر سکوت میں، آیت چھپی ہے ..

آیت حق کی تلاوت کرتے ہیں
نامہ دل کو جب پڑھتے ہیں
لوح قران کو جب بھی دیکھا
نور نبی میں گم ہو کے رہ گئے
ماہ رسال نے اخبار جہاں دیا
ہر خبر میں نیا اک زماں  دیا

کیا یہ شوق ہنر ہے کہ سادہ بیان ہے، لطیف سی بات میں دریا کا سامان ہے  نشان توحید کا نظارہ ہے، ہر آنکھ اللہ کا ستارہ ہے،  وضع میں جن کی ہو روشنی، پھیلیتی ان سے ہے خوشبو   اے چاند نگر کے رہنے والے ...کیا چاند سے آشنائی ہے؟ آنکھ میں تو کمال ہے، یہ کیسا حال ہے. روشنی آفتابی ہے، یہ کیسا حال خوابی ہے،  ہر شے اضافی ہے

راز توحید جو نکلا عیاِں نہ ہوا
اپنے نشان ڈھونڈنے چلا تو نہاں نہ ہوا. ذرہ ذرہ میں اک،  گاہ گاہ میِں اک،  وہ نقطہ میم کے ساتھ ہے تو تاج  رسولِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کائنات ہے

بس ہم سب اپنی نصیب کے چکروں میں، اک چکر میں گھوم رہے ہیں. کبھی دن تو کبھی رات کبھی آنکھ تو کبھی چاند، کبھی نور تو کبھی نار، کبھی استقامت تو کبھی بہک جانا. یہ ہمہ ہمی میں اسکی ہے سانس بنی،  یہ سانس میں جو چلی ہے اک شرار سی بنی ہے اس شرار میں نام لوح حرف کا عکس فاطمہ ہیں میری نسبتوں کا معین وقت ہے،  میرا مرکز نور فاطمہ ہیں. فاطمہ کے لعل باکمال نے زیست کے سب مرحلوں میں دی آگہی کہ حق یا علی کہنے سے نہیں، حق یا علی سے شہید کی منزل نصیب ہونے تک،  کچھ نہیں ملتا. اللہ ھو الشاھد اللہ ھو الشہید


مکمل تحریر >>

آیات جلال میں جمال کی نمود

کام ہمارا بس یہی ہے جینے کی کمی ہے بس اک دل لگی ہے رات بھی سجی ہے لوح مبارک چمک اٹھی ہے،  یزدانی نور ہے،  روحانی گھڑی ہے، پر وصال گھڑیاں ہیں،  سایہ دل میں جاناں کا جلوہ ہے،  سایہ جان کی بات کیا ہے!  میری اوقات کیا ہے، ہم نے ابر سنبھال رکھا ہے گویا اس نے ہم کو ڈھال رکھا یے،  رات سے قبل زوال رکھا ہے،  عجب صبح کا حال رکھا ہے،  ہر بات میں کمال رکھا ہے،  نشتر میں اک سامان رکھا ہے،  دید میں خنجر کا بازار رکھا ہے؟  آسمان کو سر پہ اٹھا رکھا ہے، یہ دل کس نے اٹھا رکھا یے،  مٹنے کے بہانے سو مٹے نہیں، جلنے کے بہانے سو مگر جلے نہیں. یار کے وصال میں کیا کمال ہے کہ گھڑی گھٍڑی میں وصال ہے

گفتگو کس نہج کی ہو، جانے کس لڑی کی ہو،  جانے کس رہ میں بنے جانے کس عمر تک چلے جانے کس کمال تک ملے جانے کس مثال میں ملے جانے کس کتاب میں ملے جانے کس آیت سے پتہ ہلے جانے کس شجر کے آرپار ہوں. جانے کس ولی کے سو یار ہوِں جانے کس کبریاء جاناں کے ہزار راز ہوں. جانے کس لہو میں لا الہ الا اللہ کی تمجید ہو جانے کس گھڑی میں جان رطب للسان رہے جانے کون سے گھڑی میں وہ بلیغ لسان ملے، جانے لمحات رک جائں، جانے گھڑیاں تڑپ جائیں،  جانے وقت کی گونج سے پربت لرز جائیں پر معبد دل میں خشیت کا وضو ہو،  مزمل کی ردا ہو اور مدثر کا جلال ہو تو کمال ہو

یہ ان کی عطا ہے مجھ پہ کس کی ردا ہے، کالی کملی میں کمال ہے، مجھ پہ طاری حال ہے، میری کیا مجال ہے جو ہے ان کا سال ہے،  دل میں کیا سوال ہے کہ ہر بات میں جواب ہے،  یہ ہاتھ میں رباب ہے، تار محمدی یے، مشک عنبریں میں رکے نہ رکے چلے نہ چلے، جھکے نہ جھکے رہے نہ رہے ہم گئے

آیت جلال میں جمال کی نمود
شوق طرب میں  درد کی حدود
میٹھا ذکر ہو تو ہوتا ہے ورود
ہر سانس میں تھمتا ہے وجود

حرکت دل میں نام محمد ہے،  اس نام سے چراغاں ہے چار سو،  دروبام گونج اٹھے ہیں،  صلی علی پڑھتے رہے کہ وصال کی گھڑی کے انتظار میں تھک گئے ہیں مگر فنا کے منتظر رہے کہ کب وہ دکھیں کب مریں کب موت ہو تو کب زندہ ہوں. زندگی میں کیا کمال ہے وگرنہ سانس بھی اک وبال ہے. اب کچھ ہم سوچتے ہیں کہ کہنے کو مطلق مثال کیا دیں. ہم سوچنے کو روئیت حال کیا دیں


مکمل تحریر >>

آیات سیدہ فاطمہ. نمبر ۳

آیاتِ سیدہ.فاطمہ
تحریر نمبر ۳
اجمال کی تفصیل کیا ہے ہم کیا جانیں گے ہم تو اتنا جانتے ہیں یہ نسخہ مصحف ابراہیمی حسینی.روح میں ظاہر ہوگیا،

یہی.وہ نعمت ہے جس کے لیے اللہ نے فرمایا

"الیوم اکملت ..."

وہ وجود(نور) مکمل ہوگیا وہ مصوری جس کے لیے المصور نے دنیا.بنائی  ...وجود، مصوری،  سب مکمل ہوا،  قلم حسن کے شاہکار پہ توڑ دیا گیا کہ اس سے بہتر نقاش گر نے کیا بنانا تھا

تمام انبیاء کا نور مکمل ہوکے  مقدس نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے   سیدہ فاطمہ رضی تعالی عنہ  کی روح میں منتقل ہوا  تو اللہ نے فرمایا

انا اعطینک الکوثر،

سیدہ.طاہرہ عالیہ زاہدہ مرضیہ، راضیہ، مطہرہ،  عارفہ  بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو پہچاننے والے، خود کی پہچان کرگئے،   یوں امِ ابیھا بی بی فاطمہ(سلام و درود ان پر)  سے رکھنے والے کشتی پار کرگئے

قسم کھائی خالق نے  اس کعبے کی جس کو تخلیق کیا گیا،  قسم  کھائی  اس حُسن کی جو  ظہور آدم سے نمود ہوتے،  یوحنا علیہ سلام  سے جوزف علیہ سلام  سے،  محمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں پہنچا،  ساری کائنات نے محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سینے(قلب /نور)  کا طواف کیا،  اس لیے پتھرمسجود ہوگئے،  کلمہ پڑھنے لگے، اس لیے چاند شق ہوگیا،  اس لیے مکڑی نے غار ثور میں جالا بُن دیا،  اس لیے جب بوقت ہجرت مٹی پھینکی گئی تو کفار اندھے ہوگئے ... اس لیے احساس کی رم جھم دلوں پہ پڑنے لگی،  اسی وجہ سے شجر جھک جھک کے باد کو سلام کرتے ہیں کہ باد بھی سیدہ بی بی  فاطمہ علیہ کو  سلام کرکے آتی ہے

  بی بی مریم علیہ سلام ہو،  آسیہ بی بی ہو،  یا ام عائشہ رضی تعالی عنہ ہوں ... یہ  سب سلاسل نور کے مرکوز ہائے رنگ پیرہن سیدہ پاک بی بی  میں مجتمع ہوئے ...   جب امام  حسین  عالی مقامنے نوکِ سناں سجدہ کیا،تو خدا  چاہتا تو نار ابراہیمی جیسے گلنار ہوئ،  اس طرح یہ مقتل گاہ  نہ سجتی نہ نوک سناں سجدہ ،  یہ نہ ہوتا  تو جنون کی  سب پردہ دری کرتے رہتے

اسی نے "خضر" کا رستہ اختیار کرلیا،  گویا "موسی "خود میں خضر ہو گیا، 

اے خضر راہ،  بتا تو سہی کہ انجیل مقدس کے راستے کون سے ہیں
اے خضر راہ بتا، نمود جلال
سے ظہور جمال کی پہنچ
اے خضر راہ بتا،  درد کی منتہی پہ کیا رکھا ہے

وہی فضل ہے جو سیدہ بی بی مریم علیہ کے دل میں اترا،  انجیل  مقدس دل میں اترتی ہے،  یوحنا کی تعظیم اترتی ہے،  کعبے میں جگہ مل جاتی ہے
حیا کی مٹی سے جب تخلیق کیا گیا تو سب سے پہلے اس خاص مٹی سے  سیدہ پاک دامن بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو تخلیق کیا گیا،

اسم نور علی النور کی کہانی ہے
یا ایھا النفس المطمئنہ کا بیان ہے،  اسی آیت کے لیے آیت خاص کو ملحم کیا گیا،  آیت خاص وجدان کی سطح پہ اترتی ہے،  نسلیں تب قبائے ہاشمی پہن لیتی ہیں،  جہاں جہاں نور بکھرتا ہے،  اجالا ہوتا جاتا ہے،  درد کی بھی تھیں قسمیں،  اک درد قربانی کا،  اک درد نفس کا،  اک درد تڑپ کا تھا،  اک درد احساس کا تھا،  اک درد پیار سے نکلا خاص تھا،  یہ درد تمام رنگ اسی نسل میں،  اہل بیت، پنجتن پاک میں اتار دئیے گئے ہیں،  آیت خاص  سورہ الکوثر کے علاوہ کیا ہے!  یہ وہ مثل آب ہے،  جس نے اسکو پالیا.گو یا خضر راہ سے کلیمی پالی

حُسینی نور کو کمال کی بلندی حاصل ہے،  شرح صدر سے شرح نفس تک کی بات ہے، جب خدا نے کہا اک جسم میں دو دل نہیں ہوتے،  تو آزمائے گئے تھے مومن   یہاں تک کہ ان کے دل حلق تک خشک ہوگئے،  اس خوف میں اک استقلال رکھا.گیا تھا،  یہی استقلال ہے جو حسین کو دیا گیا،  حسین اس نور استقلال سے معبد بدن میں تھے،

ابن علی کو  علم خاص عطا کیا تھا،  جب  "اقرا " کے حرف ابتدا سے سکھایا گیا تھا قران،  جب احساس نے قلم سے رشتہ نہیں پکڑا تھا،  جب کن کا خیال وجود میں آیا تھا،  اس خیال میں تپش حسن سے خیال عین ظہور ہوا ...حسین نام تھا اس خیال کا،  یہی نام حسین فلک سے فرش تک اترا تھا

کمال تھا کہ شان بے نیازی کا دوشالا ہم نے عطا کیا تھا،   جب  امام حسین نے کربل کے میدان میں قدم رکھا ........ تو قسم خدائ کی،  قسم الہیات کی،  قسم ہے قلم کی،  قسم نور وجود کی جو سینوں میں اتارا گیا، امام حسین نے پیٹھ نہ پھیرا،  درد کو سینے پہ سہا،  درد روحی تھا ... درد جسمی تھا .... درد کی تمام قسمیں امام  حسین کو دیں گئیں  ..قسم اس ذات کی، امام  حسین نے تخلیق ناز ہونے کا حق نبھایا ہے ....،

امام حسین کو کمال خاص عطا ہوا تھا،  اس کائنات میں امام علی  حیدر کو جو شجاعت عطا ہوئ ہے،  اس شجاعت کا کمال امام حسین نے پالیا تھا،  کمال رفعت کو پہنچا تھا سلسلہ ہائے مولائے علی کے تار حریم سیدہ پاک بی بی  فاطمہ سے حسین کو،  تو شجاعت نے کمال کی پگڑی پہنی تھی کربل میں

امام حسین کو  چرند پرند، تلوار دستار،  پہاڑ سب سے بات کرنے کی دسترس دی،  جو نطق گویائی حضرت  داؤد و سلیمان علیہ سلام  کو ملی،  اس گویائی، ناطق ہونے  کی انتہا  امام حسین کو ملی،  یہ نطق  جس کا سلسلہ سیدہ پاک بی بی فاطمہ کی نسبت سے چلا ...بلاشک یہ علم لدنی یے،  یہ اللہ کی عطا ہے

جب درد قسم قسم کے ملنے لگے تو جان لو کہ درد تحفہ ء ایزدی ہے، جان لو تحفہ حسینی ودیعت کردیا گیا،  جان لو شام حنا کے وقت تعین میں نسل.قربانی تک تمام احیاء العلوم  میں حسین ہے

یہ جو جمال ہے جس کو تم دیکھو، جو غور کرو جب فلک کی نیلاہٹ پاؤ، جب چاند کو ہمہ وقت رات کے حسن میں تلاشو، جب پتوں کی سراسراہٹیں اک پیغام دو جو جان لو یہ نور حسن ہے ..نور حسن کو نور حیات سے مخلق کیا گیا،  نور حیات آئیتہ الکرسی ہے، یہ کرسی حسنین کریمین میں قرار پکڑے ہوئے ہے،  آیت سردار،  سرداروں میں ترتیل.ہوتی ہے،  تب ہی علم عمل میں ڈھلتا ہے تو جان لو حسن کو علم میں کمال حاصل تھا

یہی کوثر ہے،  یہی حوض کوثر کا آب ہے ..چشمہ ء اس کے  عرش کا پانی ہے،  عرش کا پانی باب حلم سے باب عفو تک جانے والوں کو یہی ملتا ہے،  قدسیوں سے پوچھو حیرت حسن نے کیا کام کیا ہے،

حسن کی.شہ رگ میں نسبی کلمہ شجر زیتون کی مانند تھی،  نور ایسا تھا اس شجر سے چار سو پھیلا ہوا ریا ہے ..والتین ا الزیتون ...احسن التقویم کی مثال ہیں حسن ہیں،  حسن میں حَسن با کمال ہیں ...چمن حسن سے خوشہ ہائے گلابی عطر پھیلے، نبی کی سیرت جو چار سو پھیلی ہے،  یہ جو بارش رحمت کی برسے،  یہ ہوا جو چلے،  یہ کمال حیرت میں پہاڑ حیرت میں گم رینے لگتے ہیں
اجمال کی تفصیل کیا ہے ہم کیا جانیں گے ہم تو اتنا جانتے ہیں
وہی فضل ہے جو مریم علیہ کے دل میں اترا،  انجیل  مقدس دل میں اترتی ہے،  یوحنا کی تعظیم اترتی ہے،  کعبے میں جگہ مل جاتی ہے
حیا کی مٹی سے جب تخلیق کیا گیا تو سب سے پہلے اس خاص مٹی سے فاطمہ کو تخلیق کیا گیا،


مکمل تحریر >>

Friday, September 27, 2019

فرق

درد کے سمندر میں غوطے لگائے اور پھر ڈوب گئی ..درد لحظہ لحظہ شان بڑھاتا گیا اور میں جھکتی گئی. وہ وقت آیا کہ پیمانہ چھلکتا رہا، جتنا چھلکا اتنا موجود رہا، میں حیران رہی کہ باہر اور اندر برار ہوگیا کیا؟

حاضرینِ دل!  سنیے
یہ جو حال ہے، یہ درد ہے، فکر میں ڈھل رہا ہے. یہ فکر عمل سے عامل کرتے جانبِ رقص ہے. کیا سودِ زیاں؟ کیا زیانی؟ کیا حکم ربانی کے بغیر یہ حال ممکن ہے؟  ممکن نہیں کہ درد کی اساس بنا کے اس نے یاد کے طرب میں مدہوش کردیا ہے

میرے لب خاموش ہوچکے اور دل ہمہ وقت گفتگو میں ہے ...کائنات کی ناتمامی کا دکھ میری کائناتیں جلا رہا ہے .... کب ہوگا یہ غم تمام؟ کب؟ جبکہ میں اک خیال محض ہوں اور حیثیت کچھ نہیں. خاک کا پلستر خیال کی بجلی ....خیال اسکا جب دھیان ہٹائے گا، موت کا وقت .... درمیان میں کشمکش ہے سی ہے کہ وہ میں ہی ہوں جو اسکے دھیان میں ہوں؟  وہ تو لمحہ بھر غافل نہ ہوا مجھ سے. پھر مجھے کس کی طلب ہے؟ پھر میرا گیان اس کے گیان سے کیوں نہیں مل رہا ہے ...بس یہی فرق ہے ...فرق مٹ گیا تو حقیقت کھل جانی ہے
مکمل تحریر >>