Pages

Thursday, August 29, 2019

قران پاک کی تفہیم پارٹ تھری




ترتیب نزولی کے لحاظ سے دوسری قرانِ پاک کی سورۃ :القلم



تعارف: اس سورۃ میں چھپا ہے اللہ تعالیٰ کا پہلی سورۃ سے ملحق پیغام۔ اللہ نے سمجھایا ہے ''اقراء کے ذریعے قراں ، سمجھا قراں ، سیکھا قراں اور عمل کیا قراں پر، ہوگئے سب مسلمان ، حق نے پالیا غلبہ ! بے شک حق کو ہی غلبہ ہے ۔ باطل مٹنے والا ہے اور حق ہمیشہ غلبہ پاتا ہے ۔ عمل جس کی قراءت کی گئی ہے وہ نقش ہوگیا ہر انسانی دماغ میں ، انسانی دماغ کرتا رہا ہے بقلمِ حق اور قاری بنتا رہا ہے قراں ، جذب ہوتا رہا ہے سب میں قراں ،ڈٹ گئے سب آزمائشوں میں اور سہتے رہے ظلم کلمے کی نوک پر ، ثابت قدم عمار رض کا حال پوچھیے یا بلال حبشی کا ایماں ، بو بکر بن گئے حبیب ، علی رض ہوگئے رفیق ، خدیجہ رض ہر قدم ساتھ آپ ﷺ کے ، زید رض ہوگئے غلام آپ ﷺ کے ، کرلیا متنبیٰ آپ رض کو محمدﷺ نے ، یتیم و مسکین و لاچار تھے محمدﷺ ، بنے والی مسکین و لا چار کے محمدﷺ، اس دور کی بات سے ثابت ہوا کہ قران محفوظ بقلم ہوا، تسکینِ مومنین کے لیے ہوگئیں آیاتِ قلم کی نزول ، تسلی کے ساتھ حق نے کفار کو کی تنبیہ ، دی نشانیاں سمجھانے کے واسطے ، کہ شکر کریں ، صبر کریں اب سارے ، کفار کے ظلم سے ایمان والے اب کیوں ڈریں ، حق ساتھ ہے تو مرمٹے 
سارے ، جو جو پڑھ اس کو خدارا، نقش ہوجائے ایمان اس کے ذہن میں ، قلم ہوجائے قراں اس کے دل میں


القلم سورۃ ایک ضرب ہے ، حق کی آیات میں سے ایک بڑی روشن نشانی ہے ۔ کلمہ اس کا سُبحانی ہے اور جو اس کو پڑھے اس کا دل نورانی ہے ۔ نور والے نور کی تجلی لیے اس سورۃ کی تلاوت میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ سب سے بڑی نشانی نور ازل نے اپنے پیارے محمدﷺ کے لیے دی ۔ رب کو منظور نہ تھا اس کے صابر محبوب کے لیے کوئی بُرے اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرے ۔حق تو محمدﷺ کے لیے ثناء خواں ہے ، اس سے بڑھ کر بڑائی آپ ﷺ اور کیا ہو کہ خالق خود ثناء خواں ہے


اس سورۃ کو کچھ سوالات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش سے ہمیں اس سورۃ کی افادیت کا اندازہ ہوسکے گا ۔ اس لیے اس میں روز مرہ کے درپیش مسائل سے مطابقت رکھتے ہوئے تاریخی تناظر کی رُو سے جواب دینے کی سعی کی جائے گی ۔ اس لحاظ سے پہلے سوال کو رکھتے ہوئے قرانِ کریم اور آپ ﷺ کے طرزِ عمل کے ذریعے ان جوابات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔


سوال :ہمارے پیارے نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے تھے مگر جب جب ان کی توہین کی گئ آپ ﷺ نے کیا سلوک اختیار کیا ۔ اس سلوک کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں کون سا رویہ اختیار کرنا چاہیے َ؟

انَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورۃ الاحزاب( 56)

جب حق تعالیٰ وسبحانہ محبوب کی شان کی دلالت دے اور اس کی محبت کی قسمیں کھاتے ہوئے کہے جس نے میری نبیﷺ سے محبت کی ، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان کی راہ میں رخنہ ڈالا تو گویا اُس فتنہ ساز نے میری کبریائی کو للکارا!! اس لیے جہاں جہاں کفارِ مکہ نے آپﷺ کی شان میں کلمات گستاخی کہے تو اللہ تعالیٰ نے محبوب کی تسلی اور تشفی کے لیے آیات نازل کیں ۔ ایک طرف تنبیہ اور دوسری طرف محبوب کی تسکیں ملحوظ تھی ۔ قرانِ پاک میں جگہ جگہ آپﷺ کی تسلی کے لیے الفاظ کہے گئے ہیں جو آپ ﷺ کی افضلیت کی دلالت کرتے ہیں۔

و أطيعوا الله و الرسول و احذروا فإن توليتم فاعلموا أنما على رسولنا البلاغ المبين (المائدة: 92)

اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ملحوظ رکھتے ہوئے بتادیا گیا ہے اگر کوئی مرتد ہوجائے تو جان لے کہ رسول پاک ﷺ نے پیغام تو صاف صاف واضح کردیا ہے ۔۔۔۔۔!!! حضور پاک ﷺ کا کردار اسلام کے پھیل جانے سے پہلے آپ کے روشن مزاج اور عاقل ہونے کی دلیل ہے ۔ جب خانہ کعبہ پر حجرِ اسود رکھنے کی بابت حق دار آپ ﷺ خود ہوئے کہ یہ اعزاز کی بات تھی تو آپ ﷺ نے اس اعزاز میں سب سرادروں کو شریک کرلیا ہے کہ شیرِ خدا کا کام بندوں کے دلوں کو جوڑنا تھا اور دلوں کے میل کو ختم کرنا تھا ۔ دشمن بھی آپ ﷺ پر بھروسہ کریں اور آپ ﷺ کو امین و صادق کے القابات دیں ، دشمن کی گواہی تو مظہر ہے کسی کے کردار کو اجاگر کرنے کی کہ ''دشمن کی تنقید کے چراغ سے اپنی منزل تلاش کر'' اس لیے سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتا ہے

لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا (الأحزاب: 21)

آپ ﷺ کی ہستی ہر لحاظ سے مکمل اخلاق کی حامل تھی۔ ان آیات کا نزول گرچہ مدینہ میں ہوئے جب غزوہ خندق درپیش تھا ۔حق کو مقصود آپ ﷺ کے اعمال سے ثابت کرنا کہ آپ ﷺ اخلاق کے بُلند درجے پر فائز ہیں ۔ وہ موقع الاحزاب ، جب پیٹ پر پتھر باندھنے والے آپ خود تھے کہ صابر ہستی کے منہ سے اپنے لیے تو ایک لفظ کبھی نکلا کہ آپ ﷺ کو دوسروں کی فکر اکثر رہا کرتی تھی ۔ اس لیے جو دشمن برا کہتا ، اس کو ڈرانے کے لیے آیات کا نزول ہوا ۔سورۃ العلق میں نزول ابو جہل کے لیے تو کہیں ابو لہب کے لئے تنبیہ اور کہیں مغیرہ بن شعبہ کے لیے ، کہ سرداران قریش نے آپ ﷺ کے خلاف محاذ تیار کر رکھا ہوتا تھا

’’’ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ 

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ‘

اسی طرح امیہ بن خلف نے جب گالیاں دیں تو آپ ﷺ کو دیکھتے ہوئے غصے میں ہذیانی ہوجاتا ۔ آپ ﷺ خاموشی اختیار کرتے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے آیات نازل کیں ۔

’’’وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ 
بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ پیچھے عیب لگانے کا۔

اسی طرح جب پیارے محبوب ﷺ کے صاحبزادے وفات پاگئے تو آپ ﷺ کے لیے کفار نے ''ابتر '' کا لفظ استعمال کیا ۔ ابتر عربی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عربی میں اس شخص کے لیے جاتے تھے جس شخص کی اولاد کی وفات ہوجائے اس کی بطور تضحیک اس طرز کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے ۔ کثیر الاولاد ہونا فخر کی بات سمجھا جاتا رہا ہے اور جس کی اولاد بچپن میں ہی وفات پاجائے ، اس کے دُکھ میں اضافہ کرنا چہ معنی ! آپ ﷺ کے لیے گرچہ یہ صدمے کے کے لمحات میں بھی آپ ﷺ کا صبر دیدنی تھا، آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر زیادہ بھروسہ تھا کُجا کہ شکوہ کرتے ، جواب دیتے ، خاموش اختیاری کیے رکھتے . آپ کا صبر ، آپ ﷺ کے ایمان و یقین کی دلالت کرتا ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ پر زیادہ بھروسہ تھا اور دنیاوی غم آپ ﷺ کے دل میں کوئی حیثیت رکھتے بھی نہ تھے . ان غموں کا کیا کرنا آپ ﷺ کا دل تو اپنے دشمنوں کے لیے دعا کرتا تھا کہ رو رو کہ آپ ﷺ اس طرح امت کے لئے دعا مانگا کرتے تھے جس طرح وہ آپ ﷺ کی اولاد ہو . کوئی اولاد کے لیے بھی اس طرح روتا نہیں ہے جس طرح شافعی محشر نے اپنی امت کے لیے رورو کے دُعا کی . آپ نے کبھی نفسی نسفی کا کلمہ نہیں پڑھا . محشر والے دن بھی آپ ﷺ باقی پیغمبران کی طرح نفسی نفسی نہیں کریں گے بلکہ تب تک روتے جائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ امت کی کثیر تعداد کو بسبب رونے کے معاف نہ کردیں . آپ ہمیں خوشخبری دیتے جائیں گے اور خود روتے جائیں گے . سبحان اللہ ، کیا شان میرے محبوب کی !!!


وَوَجَدَکَ ضَالًا فَھَدٰی.(الضحیٰ ۹۳:۷)
’’اس نے تمھیں جویاے راہ پایا تو راستہ دکھایا۔‘‘

آپ ﷺتحنث کے ذریعے قلب کی صفائی کی گئی . وہ مرحلہ جب فرشتوں نے دل چاک کردیا اور دل میں نور بھردیا . وہ نور جو آسمانی ہے قلب اطہر ہوگیا ۔ دل نرم ہوگیا ۔ دل کے نرم ہوجانے کے بعد نور نے پھیلنا تھا۔ ارواح زمیں پر اللہ تعالیٰ کے نور کے تجلی لیے ہوئے ہیں ۔ اور اس نور کی بے مثال تجلی آپ ﷺ لیے ہوئے ہیں ۔ نورِ مبارک محمد ﷺ کی کیوں نہ ہو صابر ہو ، کیوں نہ ہو شاکر کہ دل تو آپ ﷺ کا نوارنی ہے اس روح سے لوگوں کو ہدایت ملنی ہے ، یہ ہاتھ ، اس دل کی صدا کسی کے خلاف کیسے جاسکتی تھی ، اس نور کے بارے میں سورۃ النور میں ارشاد مبارک ہوا ہے

وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلاً مِنْ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (34) اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (35)


"(اے نبی!) ہم نے آپ کی جانب روشن آیات نازل کی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو آپ سے پہلے تھے، پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت۔ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو گویا کہ وہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو کہ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ یہ نور کے اوپر ایک اور نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔"

جب براءت کی آیات کا نزول ہوا تو سورۃ التوبہ میں منافقین کے طرز عمل پر روشنی ڈالی گئی اور ان کو مسجد الحرا م میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ۔ ان مدنی آیات سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آچکا تھا کیونکہ اس سورۃ میں احکامات زیادہ نازل ہوئے ہیں ، ان احکامات میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں کیا فرمایا ہے ۔

”قل ان کان آباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ واللہ لایہدی القوم الفاسقین“۔ (التوبہ:۲۴)


ترجمہ․”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو تم پسند کرتے ہو‘ تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور جہاد سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور اللہ تعالیٰ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو“۔


اولاد ، جان و مال غرض دنیا کے ہر شے سے مقدم ہمیں محمدﷺ کو کرنا چاہیے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو کیا مقدم تھا ۔ کیا ان کو فتنہ فساد مقدم تھا ؟ اگر ایسا تھا تو سید الشہدا حضرت حمزہ رض کے جگر کھاجانے والی ہندہ کو معاف نہ کرتے اور جانی دشمن اور چچا حضرت ابو سفیاں رض کے گھر کو جائے امان نہ ٹھہراتے ۔ میرئ نبی ﷺ کے اوصاف کیسے تھے ؟ قرانِ پاک نے جگہ جگہ آپ ﷺ کی ذات اقدس کی بڑائی بیان کردی ہے ۔

کیا اللہ تعالیٰ کی بیان کی ہوئی بڑائی ہماری بڑائی سے کم ہوگی َ؟ ہر گز نہیں ! اگر یہ بڑائی اور اصاف جوں کے توں رہیں گے تو ہم پھر آپس میں تکرار ان باتوں پر کرتے ہیں جن باتوں سے ہمارے دین میں اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ شان ِ اقدس کے ہوتے ہوئے کبھی اصحاب آپس میں جنگ و جدل نہ کرپائے مگر آپﷺ کی رحلت کے بعد منافقین اس بات پر قادر نظر آئے کہ اسلام کی تقسیم کرسکیں ۔ کیا ایسا تھا آپﷺ کے اوصاف میں ؟

آپﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے آنے والے خود اسلام لے آتے ۔ آپ کی اوصاف جمیلہ ، صبر و استقامت اور تحمل ۔۔۔ آپ ﷺ بات کو صبر سے سن کر کسی بھی مسئلے کا حل نکالنے میں قادر نظر آتے ۔آپ ﷺ اللہ کے نائب اور قاصد کی حیثیت سے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ آپ کی تسکین اور بڑائی بیان کرتے ہوئے دکھتے ہیں وہیں آپ ﷺ کو تلقین بھی کی گئ ۔ کس بات کی تلقین کی گئی ہے ؟ صبر کی تلقین کی گئی ہے جس طرح پہلے انبیاء نے صبر کیا ؟ حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑ کا صبر اور استقامت ، حضر ت موسی ؑ کا استقلال و عزم اور حضرت عیسیؑ کی درویشانہ روش و تحمل ۔۔۔ آپ ﷺ ان تمام میں سے بڑھ کے تھے ۔جب آپﷺ نے اپنی توہین کے خلاف کچھ بھی نہ بولا اور نہ اصحاب کو اجازت دی جو سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار رہتے تھے تو ہم کون ہوتےہیں کہ جس بات کی اجازت اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دی ، جس بات کی اجازت اور حکم ہمیں حدیث سے نہیں ملتا کہ آپﷺ نے بدلہ اللہ کی راہ میں ، اللہ کے لیے ، اللہ کی رضا میں ، اللہ کے دین کو پھیلانے کی خاطر لیا ، آپ ﷺ کی ذات تو کہیں بھی نہیں تھی اپنے لیے کھڑی ہونے والی ، تو کیا حدیث و قراں سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ آپس میں فتنہ و فساد ڈالیں ، لڑائی کریں یا صلح صفائی سے کام لیتے ہوئے اسلام کے حامی ناصر رہیں ۔ اسلام کو پھیلانے والے بنے ، اچھی بات کو پکڑ لیں کہ اچھی بات کو پکڑنا اس طرح ہے جس طرح اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ


اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا حکم سورٰۃ الاعمران سے ملتا ہے جس میں صاف بتایا گیا کہ کس طرح دشمنوں کو آپس میں بھائی کر دیا ، نفرت کو محبت مین بدل دیا ، آگ کے گڑھے میں جو لوگ گر رہے تھے اس رسی کے تھامے رہنے کی وجہ سے وہ آگ میں گرنے سے محفوظ ہوگئے ۔ اب وہ رسی ، وہ اچھائی ، وہ نور اس بات کو فروغ دے رہا کہ تمام نوع ِ انسانی میری تخلیق ہے ، میرامذہب آپس میں فتنے کے لیے نہیں بلکہ یہ تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس ضابطے کے مطابق اگر ہم زندگیاں بسر کریں تو معلوم ہوسکے کہ ہم سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ کی تخلیق ہوتے ہوئے فساد برپا کرنا اللہ کو کس قدر ناپسند ہے
مکمل تحریر >>

قران پاک کی تفہیم پارٹ ٹو


ترتیب نزولی کے لحاظ سے پہلی قرانِ پاک کی سورۃ :العلق


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا



اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5) كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى (7) إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى ( أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى (9) عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10) أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى (11) أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12) أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (13) أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (14) كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (16) فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (1 كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (19)
ترجمہ
پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو !تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ(علم)سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے ۔ اس پر کہ اپنے آپ کو غنی (بے نیاز) سمجھ لیا، بیشک تمہارے رب ہی کی طرف پھرنا یا لوٹنا ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو ؟ بھلا دیکھو تو اگر وہ (بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو ؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو ) جھٹلاتا ہو اور منہ موڑتا ہو ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟ ہر گز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اُس کی پیشانی کے بال پکڑ کو اُس کو کھینچیں گے ،اس پیشانی کو جو سخت جھوٹی اور خطا کار ہے





میں نے قران پاک کی پہلی نشانی اُٹھائی اور لفظ ''اقراء'' پر غور کرنا شروع کیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا دماغ مفلوج ہوگیا ۔ تین دن میرا ذہن لفظ ''اقراء'' میں پھنسا رہا ہے۔ اس بات نے مجھے بے قرار رکھا کہ میں اکثر ایک دو نظر سبق پڑھ کر اپنے آپ کو پاس کروالیتی ہے ۔زندگی کا ایک بڑا امتحان میرے سامنے ہے ۔میں پہلے لفظ میں کھوئی ہوئی ہوں ۔ میری رفتار کیا ہے ؟ میں بہت کُند ذہن ہوں ۔ میں نے اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا کہ مالک میرا سجدہ قبول فرما لے ، میری گریہ قبول فرمالے ۔میرا لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا مشکل امتحان ہے کہ جس میں قدم قدم پر آزمائش شرط ہے ۔ جہاں جستجو ہو ، وہاں دُعا رائیگاں نہیں جاتی ۔ چار دن بعد میری نظر لفظ ''اقراء'' سے ہوتی ہوئی ''العلق'' پر گئی ہوں ۔ اقراء کا مطلب ''پڑھ '' ہے مگر اس کا عنوان ''العلق '' ہے ۔ اس کشمکش نے مجھے بہت رُلایا ہے ۔ بہت غور و فکر کے بعد میں اک نتیجے پر پُہنچی ہوں۔۔ اس سورۃ نے کائنات کی تفسیر بیان کردی ہے ۔ اگر یہ کائنات کی تفسیر ہے تو پورا قرانِ پاک کیا ہوگا۔۔۔ہائے ! میرا احساس ندامت !!! احساس! میری غفلت کا ہے ، میری سرکشی کا ہے ، میری نافرمانی کا ہے ۔




''العلق'' کیا ہے ؟ کیا ایک انسان ہے ؟ ایک انسان کے دو حصے ہیں ؟ حیوانات کے دو حصے ہیں ؟ نباتات کے دو حصے ہیں؟ آخر کیا ہے ؟ حیوانات و نباتات کی ابتدا ''جوڑوں '' کی بصورت مذکر و مونث سے ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ہر شے جو تخلیق کی صلاحیت رکھتی ہے اس کے جوڑے مختص کر دیے ہیں ۔ العلق کا لفظ جاندار نوع کی ابتدا کی تفسیر ہے ۔ بالخصوص اس سورۃ میں انسان کی بات کی گئی ہے ۔ انسان کی ابتدا کیسے ہوئی ہے ۔ انسان بڑا کثیف ہے ۔ ہائے! اس کی کثافت اس کو گُناہ کی طرف لے جاتی ہے ۔ یہ کثافت لطافت میں کیسے بدلی جائے ؟ انسان کی نجات کیا ہے ؟ میں ! میری ابتدا کہاں سے ہوئی ہے مجھے بتا دیا گیا ہے مگر انتہا کیا ہے ؟




اس بات سے پہلی دفعہ میرے دل میں سچا خوف پیدا ہوا ہے ۔ اس سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ میں اللہ سے محبت کروں گی کہ خوف نہ کھاؤں گی ۔مجھے جنت اور دوذخ نہیں چاہیے ۔ خیر ! یہ تو بچپن کی سوچ ہے اور بچپن تو ہوتا ہے معصوم ہے ۔ جہاں میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے ایک گناہ کیا ہے اور معافی مانگ لی ہے اور میں پاک ہوگئی ہوں ۔ مجھے کیا پتا تھا میں جب بڑی ہوجاؤں گی مجھے خود کو کتنی دفعہ ''سفل '' کہنا ہوگا کہ میں نے اکثر ایسا کہا ہے ۔۔اس میں دُکھ تھا کہ میری روح بڑی ناپاک ہے اور روح ناپاک ہے کہ میں جھوٹ بولوں ، میں منافق بن جاؤں ، میں دھوکا دوں ، میں اللہ کا خیال نماز میں نہ لاؤں اور ٹکر مارتی جاؤں ۔ بہت سے ایسے گناہوں جن کو میں کبیرہ اور صغیرہ کہتی ہوں میں نے اپنی زندگی میں کیے ہیں ۔۔۔ ان گُناہوں نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں لکھوں کہ شاید ہدایت پاجاؤں ۔ شاید میرا نامہ اعمال کی سیاہ کاریاں کم ہو جائیں ۔۔ !!!




اب کہ ''العلق'' سے خیال میرا براہِ راست "اقراء' کی طرف آیا ۔۔ اس میں تو '' پڑھ '' کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ میں نے آج تک بہت کتابیں پڑھ ڈالیں مگر مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میرا من خالی ہے ِ؟ جانے یہ دل میخانہ کیوں نہ بنا ؟ جانے یہ دل کب میخانہ بنے گا؟ یہ سوال تو بڑا تڑپاتا ہے !!! میں جب پہلی دفعہ اسکول میں داخل ہوئی تو اس میں سب سے پہلے مجھے حروفِ تہجی سکھائی گئی اور پھر مجھے لکھنا سکھایا گیا جب میں نے لکھنا سیکھ لیا تو میرا امتحان لیا گیا ۔ میرا امتحان مجھے اگلے درجے میں پہنچا گیا ۔ اس کا ادراک مجھے پہلی دفعہ یہ سورۃ پڑھتے ہوئے کہ اس سورۃ کی تفسیر تو میری زندگی کی تعمیر و تخریب کی کہانی سناتی ہے کہ میں جو چاہوں راستہ اختیار کرلوں ۔میں نے قران پاک پڑھا۔۔ ارے ! میں پڑھ رہی ہوں مگر مجھے دو لفظوں کی مار نے ایسا رُلایا کہ میں اتنا کبھی نہیں روئی ۔ میں اس بے قراری کو کیا کہوں ۔۔۔؟ اگر اس طرح میں نے پورا قران پاک پڑھا تو کیا میں میرا عمل خالی رہ جائے گا؟



بات سمجھ کی آگئ ۔۔۔ میں نے پڑھا اور اس کو سمجھا !! اس کے بعد میں نے عمل کو لکھا ۔ کیسے ! اس سوچ میں ہوں کہ ایک لکھنا تو وہ ہے کہ مجھے بات سمجھ آگئ اور میں نے جو سمجھا لکھا ؟ سب سے پہلے اس کو دماغ کی سلیٹ پر لکھا ہے ۔ اس کے بعد اس سلیٹ سے میں نے کاغذ پر لکھنا شروع کردیا۔ اب جو میں نے لکھا ہے اس کو میں نے اچھا جانا ہے تو میں عمل اچھا کروں گی اور اگر اس کو سمجھ کر بھی میں اس پر عمل نہ کرسکی تو؟ اس سوالیہ کے نشان پر مجھے ناکامی کا احساس یاد آیا ہے کہ زندگی میں خواب ٹوٹ جائیں تو ناکامی بڑا ستاتی ہے ۔ ناکامی نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے نہ دیتی ہے ۔۔ ہائے ناکامی ۔۔ وائے کامیابی ۔۔۔ وائے کامیابی ۔۔ کیسے اس کامیابی کو حاصل کیا جائے ؟ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ۔میں نے محنت شروع کرکے اعمال سنوارنے کی کوشش کی ؟ یا میں نے پیغام سمجھ لینے کے بعد اَن سُنی کردی ۔



کچھ طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور بعض اوقات وہ ناکام ہوجاتے ہیں ۔یہ تو زندگی کے امتحان ہوتے ہیں ، اس اندرونی انتشار کا سامنا ہم کو آخری امتحان روزِ محشر نہ ہو ۔ ورنہ میں اور آپ تو بڑے پھنس جائیں گے ۔ناکام کی کی جگہ اس دنیا میں کم ہوتی ہے دنیا کامیابی کے پیچھے بھاگتی ہے . اس طرح آخرت کی طرف دوڑنے والے کامیاب ہوجائیں گے . سب سے بڑا استاد خالق ہے اور اس کے شاگرد اس کو چیلنج کریں تو کیا اس کی غیرت یہ گنوارا کرے گی َ؟ وہ بہت رحیم و رحمان ہے . فضل و کرم ان پر کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کو سزا دیتا ہے جن کے دل قفل لگ جانے کی وجہ سے گرد اٹ جاتے ہیں . گرد تالے کے اوپر جمع ہوجاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ تالا یا قفل زنگ آلود ہوجاتا ہے ، پرانے تالوں پر چابیاں کام کرنا چھوڑ جاتی ہے . اللہ تعالیٰ کا کلام چابی ہے . یہ کلام ہر روح پر کارگر ہے ، ہر روح پر اسرار اس کلام کے ذریعے کھلتے ہیں . مگر جن کی عقل کام کرنا چھوڑ دے ، جن کا دل و نگاہیں بصیرت و بصارت کھودیں ، جن کے آنکھیں حقائق کو دیکھ کر ماننے سے انکار کردیں ان کے دل پر تالے ہیں. ان کے تالے کیسے کھلیں کہ عرصہ گزر جانے کے بعد رحمانی کلام کی چابی سے دل کے قفل نہیں کھولے گئے . کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کہاں جائیں گے َ ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگاَ؟ ان کے حصے میں ناکامی ہے ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا؟




اس بات سے مجھے اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آگیا . جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ تارخ کے لے دُعا کی . بعض مورخین کے نزدیک ان کے والد کا نام آذر تھا جبکہ ان کے چاچا کا نام تارخ تھا . آپ نے اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا مانگی . ایک شخص جس کی ساری زندگی انکار میں گزری ہو اور وہ روح پر قفل لگائے جہاں فانی سے کوچ کر جائے تو اس کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے ؟ اس کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے خود بتادیا . ایک پیغمبر جو خلیل اللہ تھے ان کی بات قبول نہ کی . اس بات سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ محشر میں قرابت و رشتہ داری کام نہ آئے گا .اگر کام آئے گا تو ایک سچا رشتہ جو مجھے اللہ سے جوڑے اور خالق سے نکلے جتنے رشتے ۔۔۔ان رشتوں سے اگر میں محبت کر سکی تو .. میں اس قابل ہو جاؤں گی اپنی پناہ کی التجا کر سکوں . ورنہ مجھےڈر ہے .. مجھے اپنی آخرت کا ڈر ہے .. مجھے روزِ محشر سے ڈر لگتا ہے ، مجھے عالم برزخ سے ڈر لگتا ہے جس کی دروازہ مجھ پر کھلے تو وہ جنت کی ٹھنڈی چھاؤں بھی ہوسکتا اور دوذخ کی گرم ہوا بھی ... اور مجھے سچ میں بہت ڈر لگا ... یوں لگا میرے آگے اندھیرا چھا گیا ہے .. اس سے آگے کا تصور میں کر نہیں سکی ... کیا کروں ... ڈر لگتا ہے ... بہت ڈر لگتا ہے ... مجھے اس کا نافرمان نہیں بننا .... مجھے کوشش کرنی ہے کہ میں اللہ کے راستے پر چل سکوں ۔۔



اس خیال کے آتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس صورت کے بھی چار حصے ہیں ....
1. انسان کی مادی تخلیق و ارتقاء
2. انسان کی روحانی تخلیق و ارتقاء
3. جبرو قدر کا فلسفہ .. اختیار و مرضی کا تعلق 
4. برائی کا انجام ...جہنم 


سم الله الرحمن الرحيم 

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔۔اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔۔الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔۔۔ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔۔۔



یہ انسان کی روحانی تربیت کے بارے میں بتاتا ہے ۔ انسان کی روحانی تربیت پڑھنے سے شروع ہوتی ہے ۔ اور پڑھنے کے بعد اس کی سمجھ نمو پاتی ہے اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں انسان کی ابتدا کے بارے میں بتایا گیا ۔ انسان کی ابتدا کثافت سے ہوئی مگر اس کی کثافت ، روح کی لطافت بڑھانے سے کم ہوسکتی ہے ۔ روح کو لطافت پڑھنے سے ملتی ہے ۔ جو جتنا پڑھتا جائے گا اس کی لطافت کثافت کو ختم کرتی جائے گئ ۔ پیغمبروں کو اس لیے معصوم کہا جاتا ہے کہ ان میں لطافت لطافت ہی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت محمد ﷺ لطافت طائف کے سفر میں لہولہان ہوجانے کے باوجود بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نہ سکے مگر وہ پیارے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے ۔ اس روحانی تربیت کی مثال کہاں ملے گی کہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دعا دیے جارہیں تھے ۔ ہم پیارے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے گناہوں سے پا ک ہو کر روح کو بلند مقام کی طرف لے جاسکتے ہیں ۔مگر اس کے لیے ہمیں پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے ، ان اعمال کو لکھنا ہے ، عمل کرنا ہے ، اچھائی کی طرف جانا ہے ، قلم ہمارا متحرک رہے ، ہمارا دماغ اچھے کو قبول کرکے اچھے کی طرف آمادہ کرے ۔۔۔ یہاں دو طرح کا لکھنا ہے ایک وہ قلم جس سے کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور ایک وہ قلم ہے جس کو دماغ لکھتا ہے ، اس قلم سے عمل بنتا ہے ۔ قلم جب چلتی ہے ، دماغ جب چلتا ہے تو انسان وہ علم سیکھتا ہے جن علوم کو وہ جانتا ہی نہیں ۔ اب ہم کس حد تک اس قلم یعنی دماغ کو چلا کے روح کی تربیت کرکے مرشد کامل کے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔





كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى Aya- أَنْ رَآَهُ اسْتَغْنَى Aya-7. إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى Aya-8. أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى Aya-9. عَبْدًا إِذَا صَلَّى Aya-10.



جبرو قدر کا فلسفہ سورۃ کے اس حصے میں بیان کیا گیا ہے ۔ انسان کی سرشت میں سرکشی ہے اور اپنے آپ کو روحانی تربیت سے بے نیاز کرکے حق کی طرف رجعت سے انکار کردیتا ہے ۔ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ اس عارضی ٹھکانے میں کب تک رہے گا؟ آخر کو اس دنیا سے کوچ کرکے موت کی طرف جائے گا ۔ اس بات کا بالخصوص ذکر سورۃ ''ق' ' میں ذکر ہے ۔ انسان کی ہڈیاں کھا لی جائیں گی ۔ اس کے اعضاء ریشہ ریشہ ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس بکھرے ہوئے حصوں کو مجتمع کر لے گیں ۔ اور اس میں روح ڈال کر اس سے حساب لیں گے ۔ اس کے بعد اس کی سرکشی کس کام کی َ ؟ کہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ ۔۔''اریت'' کے معنی دیکھنا ۔۔'' ینہی'' بمعنی منع کرنا۔۔۔ کسی چیز سے منع کرنا ۔۔ ؎؎عبد'' ۔۔ بندے کو ۔''۔ صلیََ ''۔۔۔ نماز و عبادت کرے ۔۔ وہ بندہ جو سرکش ہے ۔ تاریخی حوالہ تو جناب پیارے حضور پاکﷺ اور ابو جہل سے متعلق ہے ۔ مگر یہاں یہ ہر اس انسان پر لاگو ہے جو حق راہ پر چلنے والوں کا راستہ روکے اور عبادت مٰیں رخنہ ڈالیں ۔۔ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا۔۔۔ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں وہ اس کے بندے ہوتے ہیں اور جو اس کے محبوب بندوں کو تنگ کریں وہ کس راہ پر ہوں گے ؟ سوچیے نا! وہ جو اس محبوب بندوں کو ایک سیدھی راہ پرچلنے دیں کہ ان کے دل تاکے کھاچکے ہیں مگر اپنے ساتھ نقصان تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں ، ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں کے درمیاں رخنہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عبادت میں رکاوٹ پیدا ہوجائے ۔ ایسے بندوں کے لیے سخت وعید ہے ۔



أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى Aya-أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى Aya-12. أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى Aya-13.أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى Aya-14. كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ Aya-15. نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ Aya-16.فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ Aya-17. سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ Aya-18. كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ Aya-19.



''ارایت'' بمعنی دیکھنے کے ۔۔'' کان ''بے شک ۔۔ ''علی'' ۔۔اوپر یا کی جانب ۔۔ کیا ہدایت پاجانے والے بندے کو نہیں دیکھا ۔۔ بے شک حضرت محمدﷺ کی طرف اشارہ ہے اور ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے لیے اشارہ ہے ، جو نبیﷺ کا پیرو کار ہے کہ وہ ہدایت پر ہیں ۔۔ امر ۔۔ بمعنی حکم کے ۔۔ پیرہیزگاری کے حکم کو اپنائے ہوئے ہے یا اس کو تقوی پر استوار کردیا گیا ہے ۔ اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی راہ ہر ہے اس کو اگر اس کو فتنہ ساز تنگ کرے گا تو کیا ہوگا؟ کذب۔۔ جھوٹا اور ''تولی'' ۔۔۔ بمعنی حق سے رو گردانی کرنا ہے ۔۔۔ کہ یہ فتنہ ساز جھوٹے اور حق سے روگرادنی کرنے والے ہیں ۔۔۔؎؎ الم ''۔۔۔ کیا نہیں ، ''یعلم'' ۔۔ جانتا ۔۔'' یری ''۔۔ دیکھنے کے روپ میں ۔۔۔اللہ تعالیٰ کیا نہیں دیکھ رہا کہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ اور جب اللہ جانے تو اس کا کیا سلوک ہوگا ۔ بے شک یہ ایک وعید ہے ، ایک تنبیہ ہے ۔کہ ان کو پیشانیوں کے بل کھینچا جائے گا۔۔۔ پیشانی وہ جگہ جو دماغ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دماغ جب اندھا ہوجائے تو اس کو اس کی پیشانی سے پکڑ کر جہنم واصل کیا جائے اور تب اس کے ساتھی اس کے کام نہیں آنے والے ۔۔ اور جو لوگ پرہیز گار ہیں ۔۔ جو عبادت کرتے ہیں ۔۔ اس کو سنا دیا گیا کہ ان سے ڈرو مت ۔۔۔ تم حق پر ڈٹے رہو۔۔ اور اللہ کا قرب حاصل ہو۔۔





سورۃ العلق قرانِ پاک کی پہلی صورت ہے جس کا نزول غارِ حرا میں ہوا ۔ اس کی آغاز حضور پاکﷺ کی روحانی تربیت سے ہوا۔ روحانی تربیت بمعنی کلامِ الہی کے اسرار و رموز کا آپﷺ کی ہستی پر کُھل جانا ۔ اس سے پہلے آپﷺ پر خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے آپﷺ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور غارِ حرا میں جاکر غور و فکر شروع کردیا ۔ یہی غور و فکر انسانی تربیت کی معراج ہے ، کمال پر پہنچ کر پیغمبروں پر وحی اور مومنوں پر ان کے درجات کے مطابق کشف و الہام کے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں۔ پڑھنے پر تین دفعہ زور دیا گیا ۔ ایک وجہ یہ تو ہے جب کسی چیز پر بہت زور دیا جائے تو اس کو تین دفعہ لکھا جاتا ہے کہ یہ شرط ٹھہری کہ یہ کام کرنا ہی کرنا ہے ۔ اس لیے جب حضور پاکﷺ نے پہلی دفعہ انکار کیا تو روح الامین کے ہاتھوں خود کو مجبور پایا ۔آپ جو پڑھنا ،لکھنا نہیں جانتے تھے ، آپ ﷺ کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے پلک جھپکتے ہی کردی ۔ اور ''کن'' کا یہ امر ساری عمر جاری رہا ۔آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جُڑا اور اس جڑ جانے کے بعد آپﷺ دوسرے انسانوں کے لیے سایہ درخت بن گئے ۔



اس صورت کا نزول دو حصوں میں ہوا۔ ایک کو ''مالم یعلم '' تک مقرر کیا جانا حق تعالیٰ سبحانہ کی مرضی تھی اور ''لیس الانسان لیطغی '' سے دوسرا حصہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس روایت کو تمام آئمہ کی جماعت متفقہ طور پر مانتی ہے ۔



یہاں دو قسم کے لوگ متعارف ہوئے ہیں ۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ پر چلتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو نفس کے پیروکار ہوتے ہوئے شیطان کے حامی ہوجاتے ہیں ۔ ابوجہل اورسیدنا فاروق اعظم رح دو ایسےاشخاص تھے جو ہم نام تھے ۔ حضور پاکﷺ نے ان میں سے ایک لیے کی دُعا کی کہ اسلام کی طرف مائل ہوجائیں کہ دونوں ہی اسلام کے حامیوں کے جانی دشمن تھے مگر دونوں پاس سرداری کی نشانیاں لیے ہوئے تھے ۔ عقل جس نے گمراہ کردیا اور اس ابوجہل کو بہکادیا ۔ عقل جو تقلید کی راہ پر لے گئی اور سر جھکا دیا ۔ اس بندے کو وزیرِ شاہ جہاںﷺ کا لقب ملا۔ صاحب الرائے اور فاروق دوسرے القابات تھے ۔ حضرت سیدنا فارق رض کس راستے پر تھے ۔ اس راستے پر جو راستہ حضور پاکﷺ کا ہے ۔ ایک وہ انسان جو'' احسن تقویم'' کی بُلندیوں پر ہیں اور دوسرے وہ جو ''اسفل سافلین '' کی پستی پر ہیں ۔ یہ دو انتہائیں : ایک مثبت اور دوسری منفی ہے ۔



روایت کے مطابق دوسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب حضور پاکﷺ نے باقاعدہ حرم میں نماز پڑھنا شروع کردیا۔ حرم کعبہ اس وقت بُتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس صورت میں وہ انسان جو نئے طریقے پر چلے گا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ ظلم کیا جائے گا !! یہی اللہ کے قاصد دو جہاں کی رحمت حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ہوا۔ اس ظلم میں پیش پیش ابوجہل تھا ۔ اس کو تنبیہ کی گئی کہ'' لیس الانسان لیطغی'' بے شک انسان جو سرکشی کرتا ہے اور اس کی سرکشی اس کو اس طرح غرق کردیتی ہے جس طرح انسان پانی میں مکمل ڈوب جاتا ہے ۔بالکل اسی طرح کہ تنفس کا عمل ختم ہوجائے ۔ یہاں روح کے ڈوب جانے اور اس کی تنفس کی موت مراد لی گئی ہے ۔ انسان سرکش کون سے ہیں ۔ ان کا انجام کیا ہوگا۔



لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۔۔ثُمُ رددناہُ اسفل سافلین 



اچھے اور بُرے کے درمیان ترازو قائم کردیا گیا ہے اور وہ ترازو کونسا ہے ۔ آسمانی نور ۔۔۔وہ نور جس کا نور ہر روح میں موجود ہے ۔ اس کے آئینے جا بجا پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کے بندے ، وہ کیوں نہ چاہے گا ، اس کے بندے ہدایت ہا جائیں ۔ وہ خالق ہے اور اس نے روح سے بندوں کی تعمیر کی ہے ۔ اس لیے خالق نے حقوق اللہ پر حقوق العباد کو فوقیت دی ہے کہ اس کی غیرت کیسے گوارا کرے اس کی تخلیق آپس میں لڑے اور فساد برپا کرے ۔ترازو اللہ کی نظر متعین کر رہی ہے ، اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر ہے ۔ سب دیکھتا اور سنتا ہے ، مالک تمام راز جانتا ہے ۔اچھے اعمال والے انسان اُس کے سامنے ہیں اور وہ انسان بھی جن کے عمل دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ وہ انسان جیسے کہ ابوجہل نے آپﷺ پر گندگی پھینکی اور جناب حضرت پاک محمد ﷺ نے اس کو برداشت کیا مگر اللہ دیکھ رہا ہے ۔ وہ بندے جو صابر و شاکر رہے ان کے لیے معراج کا تحفہ ہے ۔ عالی مرتبت حضرت محمدﷺ کو اسی بنیاد پر معراج کا تحفہ نصیب ہوا۔



اچھے اعمال والے حق کے قریب ہوجاتے ہیں ۔ آسمان کی بُلندیوں اور لامتناہی فاصلوں کو سیکنڈز میں طے کرکے قُرب کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔ حضور پاکﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کروائی مسجدِاقصی میں اور پھر آسمان کی جانب تشریف لےگئے ، یہاں پر آپ کی ملاقات دیگر پیغمبران سے ہوئی ۔ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گئ ۔ جب مظالم کی انتہا ہوگئی تو صبر کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے ۔ آپﷺ کی ہجرت اسلام نظامِ حکومت کی بنیاد بنی اور یہ سب واقعہ معراج کے بعد ہوا۔ آپﷺ کا انجام اس سے بہتر ہو بھی کیا سکتا ہے کہ شافعی امم دونوں جہاں کی رحمت بن کر اترے ۔



دوسری طرف ابولہب اور ابو جہل جیسے لوگ ہیں ، جو اپنی سرکشی میں اس قدر بڑھ گئے کہ ان کے لیے انصاف کا ترازو قائم کرنا پڑا۔ پاک ذاتِ حق انصاف سے زیادہ رحمت سے کام لیتے ہوئے ہمارے گُناہوں کو بخش دیتی ہے کہ توبہ کے دروازے ہماری تجدید کے دروازے ہوتے ہیں ۔ مگر وہ لوگ جو گناہ کر اس پر قائم رہتے ہیں اور گناہ پر گناہ کیے ھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ رسی دراز کیے رکھتا ہے کہ یہاں تک کہ حد تجاوز نہیں کر جائے ۔ پھر انصاف کا ترازو ان لوگوں کے لیے عبرت بن جاتا ہے جن کے ارواح تجدید پر آمادہ نہیں ہوتیں ۔اور ان کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کیا ہے ۔ یہ ترازو اللہ تعالیٰ کی نظر قائم کرتی ہے ۔



ترازو کے لیے اصطلاح پیشانی کی ہے ۔ انسان جو سیدھی راہ پر ہیں وہ سجدہ کریں یعنی اپنی پیشانی حق کے روبرو جھکا دیں اور جو اپنی آپ کو نہیں جھکاتے ، ان کو زعم ہے وہ سردار ہیں ۔ ان کا حمایتی پورا قبیلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس فرشتوں کی جماعت ہے اللہ تعالیٰ کی فوج کا مقابلہ نہ کوئی کر سکا ہے اور نہ کوئی برابری کرسکا ہے ۔ مومنین کے لیے بالخصوص اس سورۃ کے پڑھنے کے بعد سجدہ کرنے کی ترغیب دی گئی کہ اپنی پیشانی حق کے سامنے جھکاتے ہوئے اپنی اطاعت اور اس کی ربوبیت کا اعلان کردیں ۔حضور پاکﷺ خود جب بھی یہ آیت مبارکہ پڑھتے تو سجدہ حق کو ضرور پیش کرتے تھے ۔سجدہ میں جانے سے مراد بندگی ہے ، جب غلامی میں انسان آجاتا ہے تو باطل کا زنجیریں توڑنے والا بن جاتا ہے اس کے دل سے ڈر اور خوف کے بجائے بہادری اور شجاعت کے نغمے نکلتے ہیں ۔ جس کے ساتھ اللہ ہو ، جس کی پشت پناہی اللہ تعالیٰ کرے ، اس کو کسی سے کیوں ڈرنا چاہیے ؟ سجدہِ حق اس کی شان میں ادا کرکے دل سے خوف نکال دینے چاہیے ۔


مکمل تحریر >>

قران پاک کی تفہیم پارٹ ۱


انسانی احساسات جُوں جُوں پروان چڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سوالات کی پٹاری کھولےاا زندگی کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں ۔یہ سوال ہماری زندگی کا مقصد متعین کرتے ہیں کہ ان جوابات کی روشنی میں زندگی گزارنا ہی بطریقِ احسن ہے ۔


لفظ میرا سرمایہ ہے ۔مجھے جینے کا طریقہ لفظوں نے سکھایا ہے ۔ میری زندگی میں پہلا لفظ اس ہستی کے لیے نکلا ، جس نے مجھے تخلیق کیا ۔ احساس نے مجھے ''ماں'' اور ''اللہ '' دو الفاظ سکھائے اور میری جستجوِ لفظ نے سوالات کا انبار میرے سامنے رکھ دیا ہے ۔ زندگی میں انسان خود سے بہت زیادہ سولات کرتا ہے۔ جب سوالات کا جواب تشفی بخش نہیں ملتا تو تلاش میں نکل پڑتا ہے ۔میں نے ایک حدیث کی تحقیق کے لیے اصحاب و تابعین کو ایک بر اعظم کونے سے دوسرے کونے میں سفر کرتے ہوئے پڑھا تو حیرت نہیں ہوئی کہ اسلام کا حکم یہی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ . لفظ میرا سرمایہ ہیں. کبھی کبھی دل کرتا ہے ان لفظوں کو چوموں جو حقِ باری تعالی کا کلام ہیں. نوری کلام جو انسان کے قلم کی پیداوار نہیں ہے ۔



مجھ تک قرانِ پاک الفاظ تک پہنچا ۔ میں جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی مجھ پر سحر طاری ہوجاتا اور ہر دفعہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے اس کو سمجھ کر پڑھا نہیں ہے مگر اس کے اندر پھر بھی اتنی تاثیر ہے ۔ اس احساس نے مجھے قرانِ پاک کا ترجمہ پڑھنے پر مجبور کردیا ۔ جب ترجمہ پڑھا تو مجھ پر انکشافات ہوئے ، سوالات کے جوابات کو پا کر مزید خود کو تشنہ پایا کہ قرانِ پاک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ کے گیارہ گیارہ پرتیں ہیں ، جانے کب یہ اسرار کھلے ، جانے کب میں اس کلام پر عبور حاصل کر پاؤں ۔ مجھے یہ احساس ، یہ احساس رُلاتا ہے کہ میں نے عمر گنوادی مگر نوری کلام دل میں سما نہ پایا۔ خود پر بہت ملامت محسوس ہوئی ۔ اس ملامت کے نتیجے میں میں جو لکھ رہی ہوں ۔ وہ آپ کے سامنے ہے ۔ میرے لفظ ، میرے احساس سے اور میرا احساس سوالات کی مرہون منت ہے ۔ زندگی میں سوال کے جواب پانا مرا مقصدِ حیات ہے۔



قرانِ پاک میں اخفاء کیا ہے ؟ اور کیا ظاہر ہے ؟ اس کا اسرار بے چین رکھتا ہے اور میری جستجو ساری عمر جاری رہے گی جب تک کہ اسرار سے پردو نہ اٹھا کر جان نہ لوں ۔قران پاک کی کتابت اور تدوین جناب سیدنا حضرت عثمان رض کے دور میں ہوئی اور احادیث کی تدوین جناب حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں ہوئی ۔مزید کچھ لکھنے سے پہلے کچھ نقاط ذہن میں ہیں ۔ اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ درج ذیل ہیں ۔قوانین کو دو پرائمری اور سیکنڈری ماخد میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

بنیادی ماخد

1: قرانِ پاک کلامِ الہی ہے ۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے ۔



2: سنت
کلامِ الہی کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کے ایک ہستی چلتا پھرتا قران بن گئی جن کو دنیا پیارے پیارے محمد صلی علیہ والہ وسلم کے نام سے جانتی ہے ۔ حدیث اور سنت : دونوں ماخذ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے منسلک ہیں ۔ سنت وہ ہے جس کی حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے عمل کی ذریعے ترغیب دی جبکہ حدیث وہ الفاظ ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال یا حرکات و سکنات مراد لی جاتی ہیں ۔



ثانوی ماخذ
1۔ رواج : عربوں میں کچھ رواج جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جاری رکھے اوور کچھ کے احکامات بطور ممانعت نازل ہوئے ۔ مثال کے طور پر شراب جائز سمجھی جاتی جب تک کہ شراب سے متعلق احکامات جاری نہ ہوگئے ۔ اسی طرح خواتین کا پردہ اسلام کے پھیل جانے کے بعد بطور رواج روایت میں شامل نہیں تھا جب تک کہ اسکے احکامات نازل نہ ہوگئے ۔ان معاملات پر حضرت عمر رض کی رائے بطور سند لی گئ کہ ان کی رائے اللہ تعالیٰ کو پسند آیا کرتی تھی ۔ اسی وجہ سے ان کو صاحب الرائے کہا جاتا ہے ۔



2۔اجماع (consensus of opinion)
قران ِ پاک اور احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی گئی ۔ اسلام قانون سازی کا سب سے بڑا ماخذ قرانِ پاک اور پھر حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔ ''اجماع'' کو ''قیاس'' بھی کہا جاتا ہے ۔ عہد ِ وقت کے تمام علماء کا اسلام کے قانوں کے ماخذ میں سے ایک پر اکتفا کرتے ہوئے رضامند ہوجانا ایک نیا قانون سامنے لے کر آتا تھا۔ یہ قانون اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک علماء حیات ہوتے تھے ، اس کے بعد نئے آنے والے علماء اجماع کے ذریعے نیا قانون بناتے تھے ۔ اجماع کی بنیاد سب سے پہلے جناب امام ابو حنفیہ رح نے رکھی اور اس کے بعد امام مالک رح ،امام شافعی ، امام احمد حنبل اور اصولی مسلک سے تعلق رکھنے والوں اس کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کو شدت سے عملی جامہ بھی پہنایا گیا ۔



کچھ ماخذ پر اختلافات کی وجہ سے صرف نام لکھنے پر ہی اکتفا کروں گی ۔ ان میں قیاس ، فقہی صوابدید یا استحصان ،استدلال وغیرہ شامل ہیں ۔ بعض کی نسبت بعض نے ان پر شدت سے اکتفاء کیا۔




قرانِ پاک ہم عجمیوں کی زبان نہیں ہے اس لیے ا سمیں چھپپے اسرار اور مخفی علوم کو ہم حاصل کرنے سے قاصر رہیں ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برصغیر میں جس ہستی نے کام کیا وہ حضرت شاہ ولی اللہ رح ہیں ۔ جنہوں نے ایک بڑے پیمانے پر ایک مدرسہ قائم کرنے کے بعد قرانِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا ۔ جبکہ ان بیٹے شاہ عبد القادر نے قرانِ پاک کا اُردومیں ترجمہ کرکے قرانی تعلیمات کو عام کیا۔ اس طرح قرانِ پاک عربی سے لشکری زبان اور فارسی زبان میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے پھیلنے کے بعد ، ترجمہ پڑھ لینے کے بعد ہمارے اعمال ، احکام کے مطابق نہ ہوپائیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے قرانِ پاک کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں ۔



قرانِ پاک کی ترتیب 
قرانِ پاک کی ترتیب کے دو طرز ہیں ۔
1۔ ترتیبِ نزولی
2۔ کتابی ترتیب




قرانِ پاک کی کتابت کا کام حضڑت عثمان رض نے کیا تھا۔ اس پیاری کتاب کے احکامات کو سمجھنے کے لیے نزولی ترتیب کو سمجھا جاتا ہے ۔ قران ِ پاک کے احکامات ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئے ۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کا دور اور اسلامی ریاست کا دور ۔۔ قیامِ مکہ کا عرصہ وہ دور تھا جس میں عزت مآب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے کے تمام کوششیں بروئے کار لائیں ۔ ہجرت کے بعد وہ آیات یا نشانیاں نازل ہوئیں جن کے براہِ راست احکام انسانی زندگی ، معاشرت ، نظامِ حکومت اور سیاست سے متعلق تھے ۔ اس لیے اس کے نزولی ترتیب اس کے احکامات کی سمجھنے میں درست سمت عطا کرتے ہوئے کلام الہی کو سمجھنے میں مدد دے گی ۔ اکثر ایک حکم کی کئی نشانیاں موجود ہیں ۔ اگر ان نشانیوں یا آیات کو اکٹھا کیا جائے تو مزید احکامات سے پردہ اٹھایا جاسکتاہے ۔ یہی قرانِ پاک کو درست سمجھنے کا طریقہ ہے ۔ اس سے ہی ہماری زندگیاں سنور سکتی ہیں کہ انسان دنیا میں آیا ہی ایک امتحان دینے ہے ۔ اس کو پاس ہم ان احکامات کی روشنی میں کرسکتے ہیں



قرانِ پاک کی تعلیمات کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی خوبی اس کی ترتیل ہے ، قران پاک کے ابتدائی احکامات میں اس کے پڑھنے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے سورۃ مزمل میں لفظ ترتیل استعمال کیا گیا جس سے مراد ہے کہ اس کو اس انداز سے پڑھا جائے جس سے آواز میں موسیقیت پیدا ہوجائے ۔ قرانِ پاک کے لفظ ایک خاص قسم کے پچ اور حیطہ رکھتے ہیں اور یہ پچ اور حیطہ تقریبا پورے قرانِ پاک میں ایک جیسا ہے ، اس لیے جب یہ کلام نازل ہوا تو عربی جو کہ خود کو فصاحت میں ید طولیٰ سمجھتے تھے کہ دیا کہ انسانی کلام ایسا نہیں ہو سکتا ۔ قرانِ پاک میں احکامات کے ساتھ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا ۔ایک زُبان ، اس زبان میں نازل ہو جو زبان عربیوں کی ہے اور دوسرا عربیوں میں فصیح و بلیغ وہی کہلاتا تھا جس کا کلام بہترین شاعری کی صورت لیے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احکامات کے ساتھ عربیوں کو مانوس رکھنے کے لئے قران پاک کو بصورت شاعری اتارا کہ لوگ اس حکمت بھری کتاب میں شاعری کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کو ترتیل سے پڑھیں ۔ اس کو ترتیل سےپڑھنے سے تلاوت دلوں پر اثر کرتی ہے کہ جس طرح موسیقی کا اثر دلوں پر ہوتا ہے ۔ اس لیے ہم جو قرانِ پاک کا علم نہیں رکھتے جب یہ کلام سنتے ہیں تو دل مسحور ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو کہ انسانی کمالات کی حد سے پرے ہے 
مکمل تحریر >>

تو جلتا اک چراغ پے


تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے                                                 
جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے



مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے



مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز 
کہ اَز فنائے ہست میں ہی چلنا کیوں محال ہے



ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے
جو دورِیاں ہیں درمیاں، فقط یہ اک خیال ہے



نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے 
عروجِ ذات میرا تیرے ساتھ کا کمال ہے



تری طلب کی جستجو کی میں تو ہوگئی اسیر 
تجھے علم کہ کس پڑاؤ اوج یا زوال ہے 



تو بحربے کنار ، خامشی ترا سلیقہ ہے 

میں موج ہُوں رواں کہ شور نے کیا نڈھال ہے
مکمل تحریر >>