ترتیب نزولی کے لحاظ سے دوسری قرانِ پاک کی سورۃ :القلم
تعارف: اس سورۃ میں چھپا ہے اللہ تعالیٰ کا پہلی سورۃ سے ملحق پیغام۔ اللہ نے سمجھایا ہے ''اقراء کے ذریعے قراں ، سمجھا قراں ، سیکھا قراں اور عمل کیا قراں پر، ہوگئے سب مسلمان ، حق نے پالیا غلبہ ! بے شک حق کو ہی غلبہ ہے ۔ باطل مٹنے والا ہے اور حق ہمیشہ غلبہ پاتا ہے ۔ عمل جس کی قراءت کی گئی ہے وہ نقش ہوگیا ہر انسانی دماغ میں ، انسانی دماغ کرتا رہا ہے بقلمِ حق اور قاری بنتا رہا ہے قراں ، جذب ہوتا رہا ہے سب میں قراں ،ڈٹ گئے سب آزمائشوں میں اور سہتے رہے ظلم کلمے کی نوک پر ، ثابت قدم عمار رض کا حال پوچھیے یا بلال حبشی کا ایماں ، بو بکر بن گئے حبیب ، علی رض ہوگئے رفیق ، خدیجہ رض ہر قدم ساتھ آپ ﷺ کے ، زید رض ہوگئے غلام آپ ﷺ کے ، کرلیا متنبیٰ آپ رض کو محمدﷺ نے ، یتیم و مسکین و لاچار تھے محمدﷺ ، بنے والی مسکین و لا چار کے محمدﷺ، اس دور کی بات سے ثابت ہوا کہ قران محفوظ بقلم ہوا، تسکینِ مومنین کے لیے ہوگئیں آیاتِ قلم کی نزول ، تسلی کے ساتھ حق نے کفار کو کی تنبیہ ، دی نشانیاں سمجھانے کے واسطے ، کہ شکر کریں ، صبر کریں اب سارے ، کفار کے ظلم سے ایمان والے اب کیوں ڈریں ، حق ساتھ ہے تو مرمٹے
سارے ، جو جو پڑھ اس کو خدارا، نقش ہوجائے ایمان اس کے ذہن میں ، قلم ہوجائے قراں اس کے دل میں
القلم سورۃ ایک ضرب ہے ، حق کی آیات میں سے ایک بڑی روشن نشانی ہے ۔ کلمہ اس کا سُبحانی ہے اور جو اس کو پڑھے اس کا دل نورانی ہے ۔ نور والے نور کی تجلی لیے اس سورۃ کی تلاوت میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ سب سے بڑی نشانی نور ازل نے اپنے پیارے محمدﷺ کے لیے دی ۔ رب کو منظور نہ تھا اس کے صابر محبوب کے لیے کوئی بُرے اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرے ۔حق تو محمدﷺ کے لیے ثناء خواں ہے ، اس سے بڑھ کر بڑائی آپ ﷺ اور کیا ہو کہ خالق خود ثناء خواں ہے
اس سورۃ کو کچھ سوالات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش سے ہمیں اس سورۃ کی افادیت کا اندازہ ہوسکے گا ۔ اس لیے اس میں روز مرہ کے درپیش مسائل سے مطابقت رکھتے ہوئے تاریخی تناظر کی رُو سے جواب دینے کی سعی کی جائے گی ۔ اس لحاظ سے پہلے سوال کو رکھتے ہوئے قرانِ کریم اور آپ ﷺ کے طرزِ عمل کے ذریعے ان جوابات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
سوال :ہمارے پیارے نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے تھے مگر جب جب ان کی توہین کی گئ آپ ﷺ نے کیا سلوک اختیار کیا ۔ اس سلوک کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں کون سا رویہ اختیار کرنا چاہیے َ؟
انَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورۃ الاحزاب( 56)
جب حق تعالیٰ وسبحانہ محبوب کی شان کی دلالت دے اور اس کی محبت کی قسمیں کھاتے ہوئے کہے جس نے میری نبیﷺ سے محبت کی ، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان کی راہ میں رخنہ ڈالا تو گویا اُس فتنہ ساز نے میری کبریائی کو للکارا!! اس لیے جہاں جہاں کفارِ مکہ نے آپﷺ کی شان میں کلمات گستاخی کہے تو اللہ تعالیٰ نے محبوب کی تسلی اور تشفی کے لیے آیات نازل کیں ۔ ایک طرف تنبیہ اور دوسری طرف محبوب کی تسکیں ملحوظ تھی ۔ قرانِ پاک میں جگہ جگہ آپﷺ کی تسلی کے لیے الفاظ کہے گئے ہیں جو آپ ﷺ کی افضلیت کی دلالت کرتے ہیں۔
و أطيعوا الله و الرسول و احذروا فإن توليتم فاعلموا أنما على رسولنا البلاغ المبين (المائدة: 92)
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ملحوظ رکھتے ہوئے بتادیا گیا ہے اگر کوئی مرتد ہوجائے تو جان لے کہ رسول پاک ﷺ نے پیغام تو صاف صاف واضح کردیا ہے ۔۔۔۔۔!!! حضور پاک ﷺ کا کردار اسلام کے پھیل جانے سے پہلے آپ کے روشن مزاج اور عاقل ہونے کی دلیل ہے ۔ جب خانہ کعبہ پر حجرِ اسود رکھنے کی بابت حق دار آپ ﷺ خود ہوئے کہ یہ اعزاز کی بات تھی تو آپ ﷺ نے اس اعزاز میں سب سرادروں کو شریک کرلیا ہے کہ شیرِ خدا کا کام بندوں کے دلوں کو جوڑنا تھا اور دلوں کے میل کو ختم کرنا تھا ۔ دشمن بھی آپ ﷺ پر بھروسہ کریں اور آپ ﷺ کو امین و صادق کے القابات دیں ، دشمن کی گواہی تو مظہر ہے کسی کے کردار کو اجاگر کرنے کی کہ ''دشمن کی تنقید کے چراغ سے اپنی منزل تلاش کر'' اس لیے سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتا ہے
لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا (الأحزاب: 21)
آپ ﷺ کی ہستی ہر لحاظ سے مکمل اخلاق کی حامل تھی۔ ان آیات کا نزول گرچہ مدینہ میں ہوئے جب غزوہ خندق درپیش تھا ۔حق کو مقصود آپ ﷺ کے اعمال سے ثابت کرنا کہ آپ ﷺ اخلاق کے بُلند درجے پر فائز ہیں ۔ وہ موقع الاحزاب ، جب پیٹ پر پتھر باندھنے والے آپ خود تھے کہ صابر ہستی کے منہ سے اپنے لیے تو ایک لفظ کبھی نکلا کہ آپ ﷺ کو دوسروں کی فکر اکثر رہا کرتی تھی ۔ اس لیے جو دشمن برا کہتا ، اس کو ڈرانے کے لیے آیات کا نزول ہوا ۔سورۃ العلق میں نزول ابو جہل کے لیے تو کہیں ابو لہب کے لئے تنبیہ اور کہیں مغیرہ بن شعبہ کے لیے ، کہ سرداران قریش نے آپ ﷺ کے خلاف محاذ تیار کر رکھا ہوتا تھا
’’’ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ‘
اسی طرح امیہ بن خلف نے جب گالیاں دیں تو آپ ﷺ کو دیکھتے ہوئے غصے میں ہذیانی ہوجاتا ۔ آپ ﷺ خاموشی اختیار کرتے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے آیات نازل کیں ۔
’’’وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ
بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ پیچھے عیب لگانے کا۔
اسی طرح جب پیارے محبوب ﷺ کے صاحبزادے وفات پاگئے تو آپ ﷺ کے لیے کفار نے ''ابتر '' کا لفظ استعمال کیا ۔ ابتر عربی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عربی میں اس شخص کے لیے جاتے تھے جس شخص کی اولاد کی وفات ہوجائے اس کی بطور تضحیک اس طرز کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے ۔ کثیر الاولاد ہونا فخر کی بات سمجھا جاتا رہا ہے اور جس کی اولاد بچپن میں ہی وفات پاجائے ، اس کے دُکھ میں اضافہ کرنا چہ معنی ! آپ ﷺ کے لیے گرچہ یہ صدمے کے کے لمحات میں بھی آپ ﷺ کا صبر دیدنی تھا، آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر زیادہ بھروسہ تھا کُجا کہ شکوہ کرتے ، جواب دیتے ، خاموش اختیاری کیے رکھتے . آپ کا صبر ، آپ ﷺ کے ایمان و یقین کی دلالت کرتا ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ پر زیادہ بھروسہ تھا اور دنیاوی غم آپ ﷺ کے دل میں کوئی حیثیت رکھتے بھی نہ تھے . ان غموں کا کیا کرنا آپ ﷺ کا دل تو اپنے دشمنوں کے لیے دعا کرتا تھا کہ رو رو کہ آپ ﷺ اس طرح امت کے لئے دعا مانگا کرتے تھے جس طرح وہ آپ ﷺ کی اولاد ہو . کوئی اولاد کے لیے بھی اس طرح روتا نہیں ہے جس طرح شافعی محشر نے اپنی امت کے لیے رورو کے دُعا کی . آپ نے کبھی نفسی نسفی کا کلمہ نہیں پڑھا . محشر والے دن بھی آپ ﷺ باقی پیغمبران کی طرح نفسی نفسی نہیں کریں گے بلکہ تب تک روتے جائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ امت کی کثیر تعداد کو بسبب رونے کے معاف نہ کردیں . آپ ہمیں خوشخبری دیتے جائیں گے اور خود روتے جائیں گے . سبحان اللہ ، کیا شان میرے محبوب کی !!!
وَوَجَدَکَ ضَالًا فَھَدٰی.(الضحیٰ ۹۳:۷)
’’اس نے تمھیں جویاے راہ پایا تو راستہ دکھایا۔‘‘
آپ ﷺتحنث کے ذریعے قلب کی صفائی کی گئی . وہ مرحلہ جب فرشتوں نے دل چاک کردیا اور دل میں نور بھردیا . وہ نور جو آسمانی ہے قلب اطہر ہوگیا ۔ دل نرم ہوگیا ۔ دل کے نرم ہوجانے کے بعد نور نے پھیلنا تھا۔ ارواح زمیں پر اللہ تعالیٰ کے نور کے تجلی لیے ہوئے ہیں ۔ اور اس نور کی بے مثال تجلی آپ ﷺ لیے ہوئے ہیں ۔ نورِ مبارک محمد ﷺ کی کیوں نہ ہو صابر ہو ، کیوں نہ ہو شاکر کہ دل تو آپ ﷺ کا نوارنی ہے اس روح سے لوگوں کو ہدایت ملنی ہے ، یہ ہاتھ ، اس دل کی صدا کسی کے خلاف کیسے جاسکتی تھی ، اس نور کے بارے میں سورۃ النور میں ارشاد مبارک ہوا ہے
وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلاً مِنْ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (34) اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (35)
"(اے نبی!) ہم نے آپ کی جانب روشن آیات نازل کی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو آپ سے پہلے تھے، پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت۔ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو گویا کہ وہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو کہ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ یہ نور کے اوپر ایک اور نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔"
جب براءت کی آیات کا نزول ہوا تو سورۃ التوبہ میں منافقین کے طرز عمل پر روشنی ڈالی گئی اور ان کو مسجد الحرا م میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ۔ ان مدنی آیات سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آچکا تھا کیونکہ اس سورۃ میں احکامات زیادہ نازل ہوئے ہیں ، ان احکامات میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں کیا فرمایا ہے ۔
”قل ان کان آباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ واللہ لایہدی القوم الفاسقین“۔ (التوبہ:۲۴)
ترجمہ․”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو تم پسند کرتے ہو‘ تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور جہاد سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور اللہ تعالیٰ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو“۔
اولاد ، جان و مال غرض دنیا کے ہر شے سے مقدم ہمیں محمدﷺ کو کرنا چاہیے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو کیا مقدم تھا ۔ کیا ان کو فتنہ فساد مقدم تھا ؟ اگر ایسا تھا تو سید الشہدا حضرت حمزہ رض کے جگر کھاجانے والی ہندہ کو معاف نہ کرتے اور جانی دشمن اور چچا حضرت ابو سفیاں رض کے گھر کو جائے امان نہ ٹھہراتے ۔ میرئ نبی ﷺ کے اوصاف کیسے تھے ؟ قرانِ پاک نے جگہ جگہ آپ ﷺ کی ذات اقدس کی بڑائی بیان کردی ہے ۔
کیا اللہ تعالیٰ کی بیان کی ہوئی بڑائی ہماری بڑائی سے کم ہوگی َ؟ ہر گز نہیں ! اگر یہ بڑائی اور اصاف جوں کے توں رہیں گے تو ہم پھر آپس میں تکرار ان باتوں پر کرتے ہیں جن باتوں سے ہمارے دین میں اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ شان ِ اقدس کے ہوتے ہوئے کبھی اصحاب آپس میں جنگ و جدل نہ کرپائے مگر آپﷺ کی رحلت کے بعد منافقین اس بات پر قادر نظر آئے کہ اسلام کی تقسیم کرسکیں ۔ کیا ایسا تھا آپﷺ کے اوصاف میں ؟
آپﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے آنے والے خود اسلام لے آتے ۔ آپ کی اوصاف جمیلہ ، صبر و استقامت اور تحمل ۔۔۔ آپ ﷺ بات کو صبر سے سن کر کسی بھی مسئلے کا حل نکالنے میں قادر نظر آتے ۔آپ ﷺ اللہ کے نائب اور قاصد کی حیثیت سے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ آپ کی تسکین اور بڑائی بیان کرتے ہوئے دکھتے ہیں وہیں آپ ﷺ کو تلقین بھی کی گئ ۔ کس بات کی تلقین کی گئی ہے ؟ صبر کی تلقین کی گئی ہے جس طرح پہلے انبیاء نے صبر کیا ؟ حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑ کا صبر اور استقامت ، حضر ت موسی ؑ کا استقلال و عزم اور حضرت عیسیؑ کی درویشانہ روش و تحمل ۔۔۔ آپ ﷺ ان تمام میں سے بڑھ کے تھے ۔جب آپﷺ نے اپنی توہین کے خلاف کچھ بھی نہ بولا اور نہ اصحاب کو اجازت دی جو سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار رہتے تھے تو ہم کون ہوتےہیں کہ جس بات کی اجازت اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دی ، جس بات کی اجازت اور حکم ہمیں حدیث سے نہیں ملتا کہ آپﷺ نے بدلہ اللہ کی راہ میں ، اللہ کے لیے ، اللہ کی رضا میں ، اللہ کے دین کو پھیلانے کی خاطر لیا ، آپ ﷺ کی ذات تو کہیں بھی نہیں تھی اپنے لیے کھڑی ہونے والی ، تو کیا حدیث و قراں سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ آپس میں فتنہ و فساد ڈالیں ، لڑائی کریں یا صلح صفائی سے کام لیتے ہوئے اسلام کے حامی ناصر رہیں ۔ اسلام کو پھیلانے والے بنے ، اچھی بات کو پکڑ لیں کہ اچھی بات کو پکڑنا اس طرح ہے جس طرح اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا حکم سورٰۃ الاعمران سے ملتا ہے جس میں صاف بتایا گیا کہ کس طرح دشمنوں کو آپس میں بھائی کر دیا ، نفرت کو محبت مین بدل دیا ، آگ کے گڑھے میں جو لوگ گر رہے تھے اس رسی کے تھامے رہنے کی وجہ سے وہ آگ میں گرنے سے محفوظ ہوگئے ۔ اب وہ رسی ، وہ اچھائی ، وہ نور اس بات کو فروغ دے رہا کہ تمام نوع ِ انسانی میری تخلیق ہے ، میرامذہب آپس میں فتنے کے لیے نہیں بلکہ یہ تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس ضابطے کے مطابق اگر ہم زندگیاں بسر کریں تو معلوم ہوسکے کہ ہم سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ کی تخلیق ہوتے ہوئے فساد برپا کرنا اللہ کو کس قدر ناپسند ہے