Pages

Thursday, August 29, 2019

قران پاک کی تفہیم پارٹ ٹو


ترتیب نزولی کے لحاظ سے پہلی قرانِ پاک کی سورۃ :العلق


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا



اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5) كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى (7) إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى ( أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى (9) عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10) أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى (11) أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12) أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (13) أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (14) كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (16) فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (1 كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (19)
ترجمہ
پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو !تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ(علم)سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے ۔ اس پر کہ اپنے آپ کو غنی (بے نیاز) سمجھ لیا، بیشک تمہارے رب ہی کی طرف پھرنا یا لوٹنا ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو ؟ بھلا دیکھو تو اگر وہ (بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو ؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو ) جھٹلاتا ہو اور منہ موڑتا ہو ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟ ہر گز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اُس کی پیشانی کے بال پکڑ کو اُس کو کھینچیں گے ،اس پیشانی کو جو سخت جھوٹی اور خطا کار ہے





میں نے قران پاک کی پہلی نشانی اُٹھائی اور لفظ ''اقراء'' پر غور کرنا شروع کیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا دماغ مفلوج ہوگیا ۔ تین دن میرا ذہن لفظ ''اقراء'' میں پھنسا رہا ہے۔ اس بات نے مجھے بے قرار رکھا کہ میں اکثر ایک دو نظر سبق پڑھ کر اپنے آپ کو پاس کروالیتی ہے ۔زندگی کا ایک بڑا امتحان میرے سامنے ہے ۔میں پہلے لفظ میں کھوئی ہوئی ہوں ۔ میری رفتار کیا ہے ؟ میں بہت کُند ذہن ہوں ۔ میں نے اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا کہ مالک میرا سجدہ قبول فرما لے ، میری گریہ قبول فرمالے ۔میرا لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا مشکل امتحان ہے کہ جس میں قدم قدم پر آزمائش شرط ہے ۔ جہاں جستجو ہو ، وہاں دُعا رائیگاں نہیں جاتی ۔ چار دن بعد میری نظر لفظ ''اقراء'' سے ہوتی ہوئی ''العلق'' پر گئی ہوں ۔ اقراء کا مطلب ''پڑھ '' ہے مگر اس کا عنوان ''العلق '' ہے ۔ اس کشمکش نے مجھے بہت رُلایا ہے ۔ بہت غور و فکر کے بعد میں اک نتیجے پر پُہنچی ہوں۔۔ اس سورۃ نے کائنات کی تفسیر بیان کردی ہے ۔ اگر یہ کائنات کی تفسیر ہے تو پورا قرانِ پاک کیا ہوگا۔۔۔ہائے ! میرا احساس ندامت !!! احساس! میری غفلت کا ہے ، میری سرکشی کا ہے ، میری نافرمانی کا ہے ۔




''العلق'' کیا ہے ؟ کیا ایک انسان ہے ؟ ایک انسان کے دو حصے ہیں ؟ حیوانات کے دو حصے ہیں ؟ نباتات کے دو حصے ہیں؟ آخر کیا ہے ؟ حیوانات و نباتات کی ابتدا ''جوڑوں '' کی بصورت مذکر و مونث سے ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ہر شے جو تخلیق کی صلاحیت رکھتی ہے اس کے جوڑے مختص کر دیے ہیں ۔ العلق کا لفظ جاندار نوع کی ابتدا کی تفسیر ہے ۔ بالخصوص اس سورۃ میں انسان کی بات کی گئی ہے ۔ انسان کی ابتدا کیسے ہوئی ہے ۔ انسان بڑا کثیف ہے ۔ ہائے! اس کی کثافت اس کو گُناہ کی طرف لے جاتی ہے ۔ یہ کثافت لطافت میں کیسے بدلی جائے ؟ انسان کی نجات کیا ہے ؟ میں ! میری ابتدا کہاں سے ہوئی ہے مجھے بتا دیا گیا ہے مگر انتہا کیا ہے ؟




اس بات سے پہلی دفعہ میرے دل میں سچا خوف پیدا ہوا ہے ۔ اس سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ میں اللہ سے محبت کروں گی کہ خوف نہ کھاؤں گی ۔مجھے جنت اور دوذخ نہیں چاہیے ۔ خیر ! یہ تو بچپن کی سوچ ہے اور بچپن تو ہوتا ہے معصوم ہے ۔ جہاں میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے ایک گناہ کیا ہے اور معافی مانگ لی ہے اور میں پاک ہوگئی ہوں ۔ مجھے کیا پتا تھا میں جب بڑی ہوجاؤں گی مجھے خود کو کتنی دفعہ ''سفل '' کہنا ہوگا کہ میں نے اکثر ایسا کہا ہے ۔۔اس میں دُکھ تھا کہ میری روح بڑی ناپاک ہے اور روح ناپاک ہے کہ میں جھوٹ بولوں ، میں منافق بن جاؤں ، میں دھوکا دوں ، میں اللہ کا خیال نماز میں نہ لاؤں اور ٹکر مارتی جاؤں ۔ بہت سے ایسے گناہوں جن کو میں کبیرہ اور صغیرہ کہتی ہوں میں نے اپنی زندگی میں کیے ہیں ۔۔۔ ان گُناہوں نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں لکھوں کہ شاید ہدایت پاجاؤں ۔ شاید میرا نامہ اعمال کی سیاہ کاریاں کم ہو جائیں ۔۔ !!!




اب کہ ''العلق'' سے خیال میرا براہِ راست "اقراء' کی طرف آیا ۔۔ اس میں تو '' پڑھ '' کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ میں نے آج تک بہت کتابیں پڑھ ڈالیں مگر مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میرا من خالی ہے ِ؟ جانے یہ دل میخانہ کیوں نہ بنا ؟ جانے یہ دل کب میخانہ بنے گا؟ یہ سوال تو بڑا تڑپاتا ہے !!! میں جب پہلی دفعہ اسکول میں داخل ہوئی تو اس میں سب سے پہلے مجھے حروفِ تہجی سکھائی گئی اور پھر مجھے لکھنا سکھایا گیا جب میں نے لکھنا سیکھ لیا تو میرا امتحان لیا گیا ۔ میرا امتحان مجھے اگلے درجے میں پہنچا گیا ۔ اس کا ادراک مجھے پہلی دفعہ یہ سورۃ پڑھتے ہوئے کہ اس سورۃ کی تفسیر تو میری زندگی کی تعمیر و تخریب کی کہانی سناتی ہے کہ میں جو چاہوں راستہ اختیار کرلوں ۔میں نے قران پاک پڑھا۔۔ ارے ! میں پڑھ رہی ہوں مگر مجھے دو لفظوں کی مار نے ایسا رُلایا کہ میں اتنا کبھی نہیں روئی ۔ میں اس بے قراری کو کیا کہوں ۔۔۔؟ اگر اس طرح میں نے پورا قران پاک پڑھا تو کیا میں میرا عمل خالی رہ جائے گا؟



بات سمجھ کی آگئ ۔۔۔ میں نے پڑھا اور اس کو سمجھا !! اس کے بعد میں نے عمل کو لکھا ۔ کیسے ! اس سوچ میں ہوں کہ ایک لکھنا تو وہ ہے کہ مجھے بات سمجھ آگئ اور میں نے جو سمجھا لکھا ؟ سب سے پہلے اس کو دماغ کی سلیٹ پر لکھا ہے ۔ اس کے بعد اس سلیٹ سے میں نے کاغذ پر لکھنا شروع کردیا۔ اب جو میں نے لکھا ہے اس کو میں نے اچھا جانا ہے تو میں عمل اچھا کروں گی اور اگر اس کو سمجھ کر بھی میں اس پر عمل نہ کرسکی تو؟ اس سوالیہ کے نشان پر مجھے ناکامی کا احساس یاد آیا ہے کہ زندگی میں خواب ٹوٹ جائیں تو ناکامی بڑا ستاتی ہے ۔ ناکامی نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے نہ دیتی ہے ۔۔ ہائے ناکامی ۔۔ وائے کامیابی ۔۔۔ وائے کامیابی ۔۔ کیسے اس کامیابی کو حاصل کیا جائے ؟ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ۔میں نے محنت شروع کرکے اعمال سنوارنے کی کوشش کی ؟ یا میں نے پیغام سمجھ لینے کے بعد اَن سُنی کردی ۔



کچھ طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور بعض اوقات وہ ناکام ہوجاتے ہیں ۔یہ تو زندگی کے امتحان ہوتے ہیں ، اس اندرونی انتشار کا سامنا ہم کو آخری امتحان روزِ محشر نہ ہو ۔ ورنہ میں اور آپ تو بڑے پھنس جائیں گے ۔ناکام کی کی جگہ اس دنیا میں کم ہوتی ہے دنیا کامیابی کے پیچھے بھاگتی ہے . اس طرح آخرت کی طرف دوڑنے والے کامیاب ہوجائیں گے . سب سے بڑا استاد خالق ہے اور اس کے شاگرد اس کو چیلنج کریں تو کیا اس کی غیرت یہ گنوارا کرے گی َ؟ وہ بہت رحیم و رحمان ہے . فضل و کرم ان پر کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کو سزا دیتا ہے جن کے دل قفل لگ جانے کی وجہ سے گرد اٹ جاتے ہیں . گرد تالے کے اوپر جمع ہوجاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ تالا یا قفل زنگ آلود ہوجاتا ہے ، پرانے تالوں پر چابیاں کام کرنا چھوڑ جاتی ہے . اللہ تعالیٰ کا کلام چابی ہے . یہ کلام ہر روح پر کارگر ہے ، ہر روح پر اسرار اس کلام کے ذریعے کھلتے ہیں . مگر جن کی عقل کام کرنا چھوڑ دے ، جن کا دل و نگاہیں بصیرت و بصارت کھودیں ، جن کے آنکھیں حقائق کو دیکھ کر ماننے سے انکار کردیں ان کے دل پر تالے ہیں. ان کے تالے کیسے کھلیں کہ عرصہ گزر جانے کے بعد رحمانی کلام کی چابی سے دل کے قفل نہیں کھولے گئے . کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کہاں جائیں گے َ ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگاَ؟ ان کے حصے میں ناکامی ہے ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا؟




اس بات سے مجھے اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آگیا . جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ تارخ کے لے دُعا کی . بعض مورخین کے نزدیک ان کے والد کا نام آذر تھا جبکہ ان کے چاچا کا نام تارخ تھا . آپ نے اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا مانگی . ایک شخص جس کی ساری زندگی انکار میں گزری ہو اور وہ روح پر قفل لگائے جہاں فانی سے کوچ کر جائے تو اس کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے ؟ اس کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے خود بتادیا . ایک پیغمبر جو خلیل اللہ تھے ان کی بات قبول نہ کی . اس بات سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ محشر میں قرابت و رشتہ داری کام نہ آئے گا .اگر کام آئے گا تو ایک سچا رشتہ جو مجھے اللہ سے جوڑے اور خالق سے نکلے جتنے رشتے ۔۔۔ان رشتوں سے اگر میں محبت کر سکی تو .. میں اس قابل ہو جاؤں گی اپنی پناہ کی التجا کر سکوں . ورنہ مجھےڈر ہے .. مجھے اپنی آخرت کا ڈر ہے .. مجھے روزِ محشر سے ڈر لگتا ہے ، مجھے عالم برزخ سے ڈر لگتا ہے جس کی دروازہ مجھ پر کھلے تو وہ جنت کی ٹھنڈی چھاؤں بھی ہوسکتا اور دوذخ کی گرم ہوا بھی ... اور مجھے سچ میں بہت ڈر لگا ... یوں لگا میرے آگے اندھیرا چھا گیا ہے .. اس سے آگے کا تصور میں کر نہیں سکی ... کیا کروں ... ڈر لگتا ہے ... بہت ڈر لگتا ہے ... مجھے اس کا نافرمان نہیں بننا .... مجھے کوشش کرنی ہے کہ میں اللہ کے راستے پر چل سکوں ۔۔



اس خیال کے آتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس صورت کے بھی چار حصے ہیں ....
1. انسان کی مادی تخلیق و ارتقاء
2. انسان کی روحانی تخلیق و ارتقاء
3. جبرو قدر کا فلسفہ .. اختیار و مرضی کا تعلق 
4. برائی کا انجام ...جہنم 


سم الله الرحمن الرحيم 

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔۔اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔۔الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔۔۔ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔۔۔



یہ انسان کی روحانی تربیت کے بارے میں بتاتا ہے ۔ انسان کی روحانی تربیت پڑھنے سے شروع ہوتی ہے ۔ اور پڑھنے کے بعد اس کی سمجھ نمو پاتی ہے اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں انسان کی ابتدا کے بارے میں بتایا گیا ۔ انسان کی ابتدا کثافت سے ہوئی مگر اس کی کثافت ، روح کی لطافت بڑھانے سے کم ہوسکتی ہے ۔ روح کو لطافت پڑھنے سے ملتی ہے ۔ جو جتنا پڑھتا جائے گا اس کی لطافت کثافت کو ختم کرتی جائے گئ ۔ پیغمبروں کو اس لیے معصوم کہا جاتا ہے کہ ان میں لطافت لطافت ہی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت محمد ﷺ لطافت طائف کے سفر میں لہولہان ہوجانے کے باوجود بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نہ سکے مگر وہ پیارے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے ۔ اس روحانی تربیت کی مثال کہاں ملے گی کہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دعا دیے جارہیں تھے ۔ ہم پیارے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے گناہوں سے پا ک ہو کر روح کو بلند مقام کی طرف لے جاسکتے ہیں ۔مگر اس کے لیے ہمیں پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے ، ان اعمال کو لکھنا ہے ، عمل کرنا ہے ، اچھائی کی طرف جانا ہے ، قلم ہمارا متحرک رہے ، ہمارا دماغ اچھے کو قبول کرکے اچھے کی طرف آمادہ کرے ۔۔۔ یہاں دو طرح کا لکھنا ہے ایک وہ قلم جس سے کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور ایک وہ قلم ہے جس کو دماغ لکھتا ہے ، اس قلم سے عمل بنتا ہے ۔ قلم جب چلتی ہے ، دماغ جب چلتا ہے تو انسان وہ علم سیکھتا ہے جن علوم کو وہ جانتا ہی نہیں ۔ اب ہم کس حد تک اس قلم یعنی دماغ کو چلا کے روح کی تربیت کرکے مرشد کامل کے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔





كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى Aya- أَنْ رَآَهُ اسْتَغْنَى Aya-7. إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى Aya-8. أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى Aya-9. عَبْدًا إِذَا صَلَّى Aya-10.



جبرو قدر کا فلسفہ سورۃ کے اس حصے میں بیان کیا گیا ہے ۔ انسان کی سرشت میں سرکشی ہے اور اپنے آپ کو روحانی تربیت سے بے نیاز کرکے حق کی طرف رجعت سے انکار کردیتا ہے ۔ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ اس عارضی ٹھکانے میں کب تک رہے گا؟ آخر کو اس دنیا سے کوچ کرکے موت کی طرف جائے گا ۔ اس بات کا بالخصوص ذکر سورۃ ''ق' ' میں ذکر ہے ۔ انسان کی ہڈیاں کھا لی جائیں گی ۔ اس کے اعضاء ریشہ ریشہ ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس بکھرے ہوئے حصوں کو مجتمع کر لے گیں ۔ اور اس میں روح ڈال کر اس سے حساب لیں گے ۔ اس کے بعد اس کی سرکشی کس کام کی َ ؟ کہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ ۔۔''اریت'' کے معنی دیکھنا ۔۔'' ینہی'' بمعنی منع کرنا۔۔۔ کسی چیز سے منع کرنا ۔۔ ؎؎عبد'' ۔۔ بندے کو ۔''۔ صلیََ ''۔۔۔ نماز و عبادت کرے ۔۔ وہ بندہ جو سرکش ہے ۔ تاریخی حوالہ تو جناب پیارے حضور پاکﷺ اور ابو جہل سے متعلق ہے ۔ مگر یہاں یہ ہر اس انسان پر لاگو ہے جو حق راہ پر چلنے والوں کا راستہ روکے اور عبادت مٰیں رخنہ ڈالیں ۔۔ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا۔۔۔ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں وہ اس کے بندے ہوتے ہیں اور جو اس کے محبوب بندوں کو تنگ کریں وہ کس راہ پر ہوں گے ؟ سوچیے نا! وہ جو اس محبوب بندوں کو ایک سیدھی راہ پرچلنے دیں کہ ان کے دل تاکے کھاچکے ہیں مگر اپنے ساتھ نقصان تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں ، ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں کے درمیاں رخنہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عبادت میں رکاوٹ پیدا ہوجائے ۔ ایسے بندوں کے لیے سخت وعید ہے ۔



أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى Aya-أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى Aya-12. أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى Aya-13.أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى Aya-14. كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ Aya-15. نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ Aya-16.فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ Aya-17. سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ Aya-18. كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ Aya-19.



''ارایت'' بمعنی دیکھنے کے ۔۔'' کان ''بے شک ۔۔ ''علی'' ۔۔اوپر یا کی جانب ۔۔ کیا ہدایت پاجانے والے بندے کو نہیں دیکھا ۔۔ بے شک حضرت محمدﷺ کی طرف اشارہ ہے اور ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے لیے اشارہ ہے ، جو نبیﷺ کا پیرو کار ہے کہ وہ ہدایت پر ہیں ۔۔ امر ۔۔ بمعنی حکم کے ۔۔ پیرہیزگاری کے حکم کو اپنائے ہوئے ہے یا اس کو تقوی پر استوار کردیا گیا ہے ۔ اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی راہ ہر ہے اس کو اگر اس کو فتنہ ساز تنگ کرے گا تو کیا ہوگا؟ کذب۔۔ جھوٹا اور ''تولی'' ۔۔۔ بمعنی حق سے رو گردانی کرنا ہے ۔۔۔ کہ یہ فتنہ ساز جھوٹے اور حق سے روگرادنی کرنے والے ہیں ۔۔۔؎؎ الم ''۔۔۔ کیا نہیں ، ''یعلم'' ۔۔ جانتا ۔۔'' یری ''۔۔ دیکھنے کے روپ میں ۔۔۔اللہ تعالیٰ کیا نہیں دیکھ رہا کہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ اور جب اللہ جانے تو اس کا کیا سلوک ہوگا ۔ بے شک یہ ایک وعید ہے ، ایک تنبیہ ہے ۔کہ ان کو پیشانیوں کے بل کھینچا جائے گا۔۔۔ پیشانی وہ جگہ جو دماغ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دماغ جب اندھا ہوجائے تو اس کو اس کی پیشانی سے پکڑ کر جہنم واصل کیا جائے اور تب اس کے ساتھی اس کے کام نہیں آنے والے ۔۔ اور جو لوگ پرہیز گار ہیں ۔۔ جو عبادت کرتے ہیں ۔۔ اس کو سنا دیا گیا کہ ان سے ڈرو مت ۔۔۔ تم حق پر ڈٹے رہو۔۔ اور اللہ کا قرب حاصل ہو۔۔





سورۃ العلق قرانِ پاک کی پہلی صورت ہے جس کا نزول غارِ حرا میں ہوا ۔ اس کی آغاز حضور پاکﷺ کی روحانی تربیت سے ہوا۔ روحانی تربیت بمعنی کلامِ الہی کے اسرار و رموز کا آپﷺ کی ہستی پر کُھل جانا ۔ اس سے پہلے آپﷺ پر خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے آپﷺ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور غارِ حرا میں جاکر غور و فکر شروع کردیا ۔ یہی غور و فکر انسانی تربیت کی معراج ہے ، کمال پر پہنچ کر پیغمبروں پر وحی اور مومنوں پر ان کے درجات کے مطابق کشف و الہام کے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں۔ پڑھنے پر تین دفعہ زور دیا گیا ۔ ایک وجہ یہ تو ہے جب کسی چیز پر بہت زور دیا جائے تو اس کو تین دفعہ لکھا جاتا ہے کہ یہ شرط ٹھہری کہ یہ کام کرنا ہی کرنا ہے ۔ اس لیے جب حضور پاکﷺ نے پہلی دفعہ انکار کیا تو روح الامین کے ہاتھوں خود کو مجبور پایا ۔آپ جو پڑھنا ،لکھنا نہیں جانتے تھے ، آپ ﷺ کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے پلک جھپکتے ہی کردی ۔ اور ''کن'' کا یہ امر ساری عمر جاری رہا ۔آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جُڑا اور اس جڑ جانے کے بعد آپﷺ دوسرے انسانوں کے لیے سایہ درخت بن گئے ۔



اس صورت کا نزول دو حصوں میں ہوا۔ ایک کو ''مالم یعلم '' تک مقرر کیا جانا حق تعالیٰ سبحانہ کی مرضی تھی اور ''لیس الانسان لیطغی '' سے دوسرا حصہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس روایت کو تمام آئمہ کی جماعت متفقہ طور پر مانتی ہے ۔



یہاں دو قسم کے لوگ متعارف ہوئے ہیں ۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ پر چلتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو نفس کے پیروکار ہوتے ہوئے شیطان کے حامی ہوجاتے ہیں ۔ ابوجہل اورسیدنا فاروق اعظم رح دو ایسےاشخاص تھے جو ہم نام تھے ۔ حضور پاکﷺ نے ان میں سے ایک لیے کی دُعا کی کہ اسلام کی طرف مائل ہوجائیں کہ دونوں ہی اسلام کے حامیوں کے جانی دشمن تھے مگر دونوں پاس سرداری کی نشانیاں لیے ہوئے تھے ۔ عقل جس نے گمراہ کردیا اور اس ابوجہل کو بہکادیا ۔ عقل جو تقلید کی راہ پر لے گئی اور سر جھکا دیا ۔ اس بندے کو وزیرِ شاہ جہاںﷺ کا لقب ملا۔ صاحب الرائے اور فاروق دوسرے القابات تھے ۔ حضرت سیدنا فارق رض کس راستے پر تھے ۔ اس راستے پر جو راستہ حضور پاکﷺ کا ہے ۔ ایک وہ انسان جو'' احسن تقویم'' کی بُلندیوں پر ہیں اور دوسرے وہ جو ''اسفل سافلین '' کی پستی پر ہیں ۔ یہ دو انتہائیں : ایک مثبت اور دوسری منفی ہے ۔



روایت کے مطابق دوسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب حضور پاکﷺ نے باقاعدہ حرم میں نماز پڑھنا شروع کردیا۔ حرم کعبہ اس وقت بُتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس صورت میں وہ انسان جو نئے طریقے پر چلے گا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ ظلم کیا جائے گا !! یہی اللہ کے قاصد دو جہاں کی رحمت حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ہوا۔ اس ظلم میں پیش پیش ابوجہل تھا ۔ اس کو تنبیہ کی گئی کہ'' لیس الانسان لیطغی'' بے شک انسان جو سرکشی کرتا ہے اور اس کی سرکشی اس کو اس طرح غرق کردیتی ہے جس طرح انسان پانی میں مکمل ڈوب جاتا ہے ۔بالکل اسی طرح کہ تنفس کا عمل ختم ہوجائے ۔ یہاں روح کے ڈوب جانے اور اس کی تنفس کی موت مراد لی گئی ہے ۔ انسان سرکش کون سے ہیں ۔ ان کا انجام کیا ہوگا۔



لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۔۔ثُمُ رددناہُ اسفل سافلین 



اچھے اور بُرے کے درمیان ترازو قائم کردیا گیا ہے اور وہ ترازو کونسا ہے ۔ آسمانی نور ۔۔۔وہ نور جس کا نور ہر روح میں موجود ہے ۔ اس کے آئینے جا بجا پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کے بندے ، وہ کیوں نہ چاہے گا ، اس کے بندے ہدایت ہا جائیں ۔ وہ خالق ہے اور اس نے روح سے بندوں کی تعمیر کی ہے ۔ اس لیے خالق نے حقوق اللہ پر حقوق العباد کو فوقیت دی ہے کہ اس کی غیرت کیسے گوارا کرے اس کی تخلیق آپس میں لڑے اور فساد برپا کرے ۔ترازو اللہ کی نظر متعین کر رہی ہے ، اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر ہے ۔ سب دیکھتا اور سنتا ہے ، مالک تمام راز جانتا ہے ۔اچھے اعمال والے انسان اُس کے سامنے ہیں اور وہ انسان بھی جن کے عمل دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ وہ انسان جیسے کہ ابوجہل نے آپﷺ پر گندگی پھینکی اور جناب حضرت پاک محمد ﷺ نے اس کو برداشت کیا مگر اللہ دیکھ رہا ہے ۔ وہ بندے جو صابر و شاکر رہے ان کے لیے معراج کا تحفہ ہے ۔ عالی مرتبت حضرت محمدﷺ کو اسی بنیاد پر معراج کا تحفہ نصیب ہوا۔



اچھے اعمال والے حق کے قریب ہوجاتے ہیں ۔ آسمان کی بُلندیوں اور لامتناہی فاصلوں کو سیکنڈز میں طے کرکے قُرب کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔ حضور پاکﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کروائی مسجدِاقصی میں اور پھر آسمان کی جانب تشریف لےگئے ، یہاں پر آپ کی ملاقات دیگر پیغمبران سے ہوئی ۔ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گئ ۔ جب مظالم کی انتہا ہوگئی تو صبر کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے ۔ آپﷺ کی ہجرت اسلام نظامِ حکومت کی بنیاد بنی اور یہ سب واقعہ معراج کے بعد ہوا۔ آپﷺ کا انجام اس سے بہتر ہو بھی کیا سکتا ہے کہ شافعی امم دونوں جہاں کی رحمت بن کر اترے ۔



دوسری طرف ابولہب اور ابو جہل جیسے لوگ ہیں ، جو اپنی سرکشی میں اس قدر بڑھ گئے کہ ان کے لیے انصاف کا ترازو قائم کرنا پڑا۔ پاک ذاتِ حق انصاف سے زیادہ رحمت سے کام لیتے ہوئے ہمارے گُناہوں کو بخش دیتی ہے کہ توبہ کے دروازے ہماری تجدید کے دروازے ہوتے ہیں ۔ مگر وہ لوگ جو گناہ کر اس پر قائم رہتے ہیں اور گناہ پر گناہ کیے ھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ رسی دراز کیے رکھتا ہے کہ یہاں تک کہ حد تجاوز نہیں کر جائے ۔ پھر انصاف کا ترازو ان لوگوں کے لیے عبرت بن جاتا ہے جن کے ارواح تجدید پر آمادہ نہیں ہوتیں ۔اور ان کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کیا ہے ۔ یہ ترازو اللہ تعالیٰ کی نظر قائم کرتی ہے ۔



ترازو کے لیے اصطلاح پیشانی کی ہے ۔ انسان جو سیدھی راہ پر ہیں وہ سجدہ کریں یعنی اپنی پیشانی حق کے روبرو جھکا دیں اور جو اپنی آپ کو نہیں جھکاتے ، ان کو زعم ہے وہ سردار ہیں ۔ ان کا حمایتی پورا قبیلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس فرشتوں کی جماعت ہے اللہ تعالیٰ کی فوج کا مقابلہ نہ کوئی کر سکا ہے اور نہ کوئی برابری کرسکا ہے ۔ مومنین کے لیے بالخصوص اس سورۃ کے پڑھنے کے بعد سجدہ کرنے کی ترغیب دی گئی کہ اپنی پیشانی حق کے سامنے جھکاتے ہوئے اپنی اطاعت اور اس کی ربوبیت کا اعلان کردیں ۔حضور پاکﷺ خود جب بھی یہ آیت مبارکہ پڑھتے تو سجدہ حق کو ضرور پیش کرتے تھے ۔سجدہ میں جانے سے مراد بندگی ہے ، جب غلامی میں انسان آجاتا ہے تو باطل کا زنجیریں توڑنے والا بن جاتا ہے اس کے دل سے ڈر اور خوف کے بجائے بہادری اور شجاعت کے نغمے نکلتے ہیں ۔ جس کے ساتھ اللہ ہو ، جس کی پشت پناہی اللہ تعالیٰ کرے ، اس کو کسی سے کیوں ڈرنا چاہیے ؟ سجدہِ حق اس کی شان میں ادا کرکے دل سے خوف نکال دینے چاہیے ۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔