Pages

Saturday, November 2, 2019

عرفان ذات

...عرفان ذات خود سے خدا تک سفر ہے،  چھوٹے چشمے کا سمندر کی جانب ..معبد بدن میں جب اک ذات ظاہر ہوجائے تو وہ ہی رہتی ہے،  وہ ہمہ وقت رہتی ہے،  وہ پاس بلاتی ہے،  وہ یار سے ملاتی ہے. یارانہ ہے کیا؟ بہانہ بنتا ہے اور یارانہ ہوجاتا ہے ..  وہ دوست جو اسکا دوست ہوتا ہے اسکو کیفیات نفسانی مغلوب نہیں کرتی. مقام لاتحزن ولاخوف سے مبراء ہوجانا بے نیازی کا مقام یے. اے خدا،  دل لگی کی ہے
اے خدا،  روشنی سی ہے
اے خدا، زیبا پس حجاب ہے
اے خدا، کون پس نقاب ہے؟
اے خدا،  دید کو بہانے ملتے نہیں
اے خدا، ترے دوست ملتے نہیں
یہ دل لگی ساری ہے، کائنات پیاری ہے
یہ مقام شوق سے پرے نہیں
یہ مقام دل میں اوٹ میں ہے
یہ نیاز مندی کے سجدے میں
یہ نوائے دل کی صدا میں ہے.
خدا،  لامحدود ازل سے ہے
یہ رگ دل میں کب سے ہے
کٹیں انگلیاں نامہ ء بر کے پاس
رہین دل کے پاس نگار جان نہیں
پیش روئے جاناں ہو مازاغ البصر کا مقام.
وہ چہرہ ہو اور. مسکرانے کا حال
وہ حال ہو کہ مٹ جائے. ملال

یہ تحریر شوق ذات ہے،  یہ ستم ہے تیرِ پیوست کا،  یہ نگہ سے گھائل جو دل ہے،  یہ فقط اسیر باغِ امیر ہے،  کہیں کے دل جس در کا فقیر ہے ...

... جو مبارک زیست ہو سفر میں ہو ...یہ زندگی بسر حذر میں، جو شوق ہو ننگ سفر میں ہو، جو حال ہو وہ نہال غم میں ہو، جو درد کی سوغات ہو تو ھل من کی صدا ہو، جو ھل من پر بات چلے تو اذن ہو استعجاب کا،  جو حیرت سے نکل سکوں تو میں یہ کہہ سکوں کہ عالم شہود میں عالم نیست میں، کچھ نہیں ہے مگر سب ہے، کچھ نہیں ہے بس وہ ہے، جو خلا ہے وہ مدام شوق ہے،  جو فنا ہے وہ رفقیق جان ہے


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔