تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے
جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے
مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے
مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز
کہ اَز فنائے ہست میں ہی چلنا کیوں محال ہے
ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے
جو دورِیاں ہیں درمیاں، فقط یہ اک خیال ہے
نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے
عروجِ ذات میرا تیرے ساتھ کا کمال ہے
تری طلب کی جستجو کی میں تو ہوگئی اسیر
تجھے علم کہ کس پڑاؤ اوج یا زوال ہے
تو بحربے کنار ، خامشی ترا سلیقہ ہے
میں موج ہُوں رواں کہ شور نے کیا نڈھال ہے
No comments:
Post a Comment